UDAS KHAMOSHI اداس خاموشی
PKR: 1,200/- 840/-
فاطمہ نجیب ایک جانا مانا نام، جہاں پاکستانی ڈرامے کا نام آئے گا وہیں فاطمہ جی کے او ایس ٹی کا ذکر بھی ضرور ہو گا۔ میرا پہلا اور بھر پور تعارف فاطمہ جی سے ان کے ایک او ایس ٹی کے ذریعے ہوا۔ میں نے ان کا لکھا گانا (کیا کروں درد کم نہیں ہوتا) سن کر سوچا تھا کیا الفاظ ہیں۔ لکھنے والی کی تخلیق ہر دل کی آواز بن گئی ہے کیونکہ درد آشنا تو ہر دل ضرور ہوتا ہے۔ پھر جب فاطمہ جی سے رابطہ ہوا تو جانا کہ وہ تو سراپا محبّت اور خلوص ہیں۔ چونکہ میرا اپنا تعلق قلم قبیلے سے ہے تو میں اچھی طرح سے آگاہ ہوں کہ کم ہی لوگ ایسے ہیں جو جیسا لکھتے ہیں ویسے ہوتے بھی ہیں۔ اس دشت کی سیاحی میں اکثر بے غرضی کے بھاشن دینے والے خود غرض دیکھے ہیں تو فاطمہ جی سے مل کر مجھے لگا میں خود سے مل رہی ہوں۔ معصوم سادہ سی بے غرض اور پرخلوص، نہ غرور نہ ہی کوئی بناوٹ ان سے مل کر خود سے ملنا اچھا لگنے لگا تھا ۔
بات کرتے ہیں ان کی تازہ تخلیق کی تو زیرِ نظر کتاب فاطمہ نجیب کی دوسری کتاب ہے اور یقیناً اسے اک شاہکار کہنا مکمل اور پورا سچ ہے ۔پہلے تو ذکر کروں گی فاطمہ نجیب اور گلزارؔ صاحب کا ۔فاطمہ نجیب کی گلزارؔ صاحب کے لیے لکھی ہوئی نظمیں پڑھ کر ان سے فاطمہ نجیب کی عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ منفرد سوچ کی عکاس سچے اور سُچے جذبات کی ترجمان اور عقیدت سے بھرپور ان نظموں کو پڑھ کر میں نے جو محسوس کیا وہ لکھ رہی ہوں۔ آپ نے کبھی جنگلی پھول دیکھے ہیں ؟ جو اکثر شہروں سے دور دراز میدانوں، چراگاہوں، کسی جھیل کے کنارے، دریا کے قریب کچھ بڑے پتھروں کے سائے میں یا پھر کسی گھنے جنگل میں ایستادہ بڑے بڑے اشجار کی چھاؤں میں کھلتے ہیں۔ لیکن کبھی کچھ جنگلی پھول پہاڑ کی چوٹی پر خود رو جھاڑیوں میں کھل کر انھیں اک عجیب سا حسن بخش دیتے ہیں۔ ان کی خوشبو کا یہ کمال ہے کہ یہ مسافروں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے مسافر میدانوں، دریاؤں، جھیلوں اور پتّھروں میں کھلے ان جامنی، گلابی، سرخ، نارنجی، کاسنی اور سفید پھولوں کو چھو کر ان کی نرمی، لطافت، خوشبو اور رنگینی اپنی انگلیوں کی پوروں میں سمو لیتے ہیں اور پھر پہاڑ کی اس چوٹی پر سے ہواؤں کے ذریعے ملن کا پیغام لانے والی خوشبو کو یہ کہہ کر سانسوں میں بسا لیتے ہیں کہ تمھاری خوشبو ہماری ہوئی لیکن لمس ہمارا نہیں ہو سکتا کہ تم تک پہنچنے کے سارے رستے بند ہیں۔ چوٹی پر برف جمی ہے جو موسم بہار میں نہیں پگھلتی۔ برف میں کھلے جنگلی پھولو! ہم مسافر گرم موسم میں لوٹ کر آئیں گے ۔لیکن نہ آسکے تو گرم موسم کی دھوپ سے پگھل کر جب یہ برف آبشاروں میں بدل کر زمین کا رُخ کرے گی تو ان آبشاروں کے دریا میں اتر جانے کے بعد تمھاری پتیاں ہمارے پاؤں سے لپٹ جایا کریں گی ۔ تب تک لمس کے رمز سے ناآشنائی نہیں رہے گی کیونکہ اب ہم جہاں کھڑے ہیں اور جن تک پہنچنا ہماری دسترس میں ہے، ان کا تعارف تمھارا ہی تعارف ہے۔
ہماری انگلیوں کی پوروں میں بسی نزاکت ،لطافت ،نرمی، سبک، پن رنگینی اور خوشبو بالکل ویسی ہے جیسی تمھاری ہوگی۔ میں بھی کہتی ہوں میں نے دور دیس کے باسی گلزارؔ صاحب کو فاطمہ نجیب کے عقیدت بھرے طلسمی الفاظ کے سحر میں گرفتار ہوکر محسوس کیا ہے۔ بلاشبہ وہ لیجنڈ ہیں۔ دنیا گلزارؔ صاحب کو ان کی شاعری، ان کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی نظموں کے حوالے سے جانتی ہے۔ یقیناً میں بھی انھیں ان کے سبھی فخریہ حوالوں کے حوالے سے جانتی ہوں لیکن اک عرصہ ہوا ان سے دوسرا تعارف بھی ہے اور انھیں ایک اور انداز میں متعارف کرانے والی پیاری سی شخصیت ہیں فاطمہ جی۔ میں گلزارؔ صاحب سے فاطمہ نجیب کی نظموں میں ملی ہوں ۔
میں نے ان سے کہا ’’فاطمہ جی آپ کا عیسیٰ خیل اور گلزارؔ صاحب کا دینہ بہت قریب نہ بھی ہوں بہت دور کبھی نہیں لگے۔ جانتی ہیں کیوں؟ کیونکہ مجھے آپ کی نظموں میں گلزارؔ صاحب کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔ فاطمہ جی اور گلزارؔ صاحب کی نظموں میں ایک جیسا رومانویت پر مبنی ماحول ہے جس میں جدائی کا درد بھی ہے اور ملن کی شفا بھی۔ آنسوؤں کا نمکین ذائقہ بھی ہے اور سٹیشن پر ریل کے انتظار میں بیٹھی کسی دیسی ناری کے سوکھے لبوں پر پھیلی محبوب سے ملن کی امکانی مسکان کی مٹھاس بھی ہے۔ سب کہیں گے فرق تو ہے شاید فرق یہ ہے کہ مرد اور عورت کے محسوسات مختلف ہوتے ہیں لیکن پہلی بات تو یہ کہ تخلیق کار حساس ہوتا ہے۔ وہ لکھتے وقت نہ فاطمہ رہتی ہیں نہ ہی گلزارؔ رہتے ہیں، وہ فقط انسان رہ جاتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ شعر اور نظمیں لکھنے والے خود میں نہیں رہتے۔ تخلیق کی پہلی بھینٹ ہی تخلیق کار کی ذات ہوتی ہے۔ آفاقیت و عالمگیریت خود سے نکل کر دوسروں میں رہنے سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ یقیناً عورت کے جذبات کو قرطاس پر سجانے کے لیے عورت میں رہنا پڑتا ہے۔ اس کے اندر کے نرم گرم موسموں سے آشنا ہونے کے لیے کبھی تپتی دھوپ میں جلنا پڑتا ہے کبھی سرد موسم کی یخ بستگی میں ٹھٹھرنا پڑتا ہے۔ یونہی مرد کے جذبات کو بھی ایک عورت تبھی قرطاس کی زینت بنا سکتی ہے جب اس کی رسائی اس کے اندر کے موسموں تک ہوتی ہے ۔ فاطمہ جی کی نظموں میں گلزارؔ صاحب کا رنگ اس لیے جھلکتا ہے کہ دونوں کے اندر دوسروں میں اترنے کا ہنر بدرجہ اتم موجود ہے اور اس ہنر سے بخوبی فیض یاب بھی ہوتے ہیں۔
میرے خیال میں صحیح معنوں میں شاعر شاعرہ وہی ہیں جنھیں پڑھ کر قاری کو لگے کہ یہ تو ہمارے جذبات کے ترجمان ہیں۔ فاطمہ نجیب کی شاعری میں شاید شعوری طور پر یہ خصوصیت اور گلزاریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ان کہ نظمیں پڑھ کر یوں لگتا ہے ہمارے ساتھ ہمارے دکھوں پر رو رہی ہیں۔ ان کے شعروں کو اپنے سینے میں دھڑکتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جب شرمیلا سا اظہار کرتی ہیں تو میرے جیسی جھلی کو بھی ان کی نظموں کی لالی اپنے گالوں کی تپش میں نظر آتی ہے محسوس ہوتی ہے ۔
فاطمہ کی نظمیں ماں کی اوڑھنی کے پلو سے بندھی ان میٹھی ٹافیوں جیسی ہیں جو وہ گانٹھ کھول کر سب سے لاڈلے بچے کو دیتی ہے یہ کہتے ہوئے:
’’تیرا ابا میرے لیے لایا تھا لیکن تیری ماں کیسے کھا لیتی کہ تجھے بہت پسند ہیں نا؟‘‘
وہ جانتی ہیں کہ ان کا لکھا ہوا ہمیں کتنا پسند ہے اسی لیے ہم سب ان کے لاڈلے ہیں۔ ان کی میٹھی میٹھی نظموں سے لطف کشید کرتے ہیں اور وہ بانٹ کر خوش ہوتی ہیں ۔واقعی سچ یہ ہے کہ وہ قرطاس کے آنچل پر ستارے ٹانکتی رہتی ہیں۔ روشنی بانٹتی رہتی ہیں۔ ان کی انگلیاں فگار ہوتی ہوں گی۔ اندھیرے سے لڑنے کے لیے روشنی بانٹتے ہوئے تھک بھی جاتی ہوں گی۔ سایہ دار شجر کو صرف سایہ نہیں چاہیے ہوتا لیکن بہت کچھ اور ضرور چاہیے ہوتا ہے۔ محبّت بھری میٹھی نظر، اپنے پتوں پر اک تھپکی، اپنی ٹہنیوں پر پرندوں کے گھونسلوں کے ساتھ ان کا اپنا پن، دو لفظ تعریف کے اور سب سے بڑھ کر ہواؤں کا نرم لمس یہ سب ملتا رہے تو سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اسی چلتے ہوئے سلسلے کی اک کڑی فاطمہ نجیب صاحبہ کی خوبصورت تخلیق اس وقت میرے سامنے ہے اور پڑھتے ہوئے بے اختیار میرے لبوں سے واہ سبحان اللّٰہ کے الفاظ نکل رہے ہیں۔
کسی شاعر کسی تخلیق کار کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات نہیں ہوتی کہ ان کا لکھا دلوں میں اتر جائے۔ ان کی تخلیق پر داد وتحسین رسمی نہ ہو بلکہ بے ساختہ ہو ۔فاطمہ جی آپ کے حسین ترین الفاظ اور خالص و پوتر جذبات میرے دل میں اتر گئے ہیں اور یہ داد بے ساختہ ہے رسمی ہر گز نہیں ۔حمدو نعت ہو، وطن کی مٹی کے لیے نذرانۂ عقیدت و محبّت ہو یا پھر کسی اجنبی کے لیے لکھی محبّت کی نظمیں آپ کا اپنی والدہ کے لیے اظہار محبّت ہو یا اپنے مرحوم والد کے ساتھ کی گئی دل کی باتیں ہوں ،پرانی یادوں کے نوحے ہوں یا پھر نئے دنوں کے امیدبھرے چنچل گیت ہوں یا پھر سرحد پار بسنے والے گلزارؔ صاحب کے نام کچھ عقیدت بھرے الفاظ کا تحفہ... ہر حرف ہر لفظ بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔الفاظ کا یہ طلسم صرف بولتاہی نہیں قاری کو اپنے سحر میں جکڑ بھی لیتا ہے۔ کہیں روتا ہوا کہیں ہنستا ہوا کہیںجدائی کےدکھ پر کُرلاتا ہوا یہ کہتا ہے کہ فاطمہ نجیب زندگی کے کینوس پر سنہرے خوابوں اور سیاہ حقیقتوں کے امتزاج سے اک متوازن تصویر بناتی ہیں۔ جو نہ ہی اتنی بھیانک ہے کہ اسےدیکھتے ہوئے حقیقتوں سے ڈر لگے اور نہ ہی اتنی ماواریت و فینٹسی ہے اس میں کہ فقط سراب لگے۔ شاعری میں یہ چلن عام ہے کہ کہیں تلخی روز و شب ہے تو کہیں نغمہ طرب و انبساطِ توازن بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، اسی لیے فاطمہ نجیب کو پڑھتے ہوئے ہر پل احساس ہوتا ہے کہ وہ عام نہیں لکھتیں بہت خاص لکھتی ہیں ۔ جب زمین سے جڑے ہوئے قدم اور فلک پر مرکوز نگاہیں رکھنے والوں پر فہم و ادراک کے در وا ہوتے ہیں تو ایسے ہی شاہکار تخلیق ہوتے ہیں۔
میری دعا ہے کہ آپ یونہی لکھتی رہیں، شاہکار تخلیق کرتی رہیں اور ایک دن آئے جب آپ کی نظموں پر آپ کا نام نہ بھی لکھا ہو ۔لوگ تب بھی کہیں کہ دو ہی لوگ ایسا لکھ سکتے ہیں، یہ فاطمہ کی نظم ہے یا پھر گلزارؔ صاحب کی۔
گل ارباب
شاعرہ،افسانہ نگار،سفرنامہ نگار