BAY PANAH SHADMANI KI MUMALKAT بے پناہ شادمانی کی مملکت
PKR: 800/-
Author: ARUNDHATI ROY
Tag: ARJUMAND AARA
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL TRANSLATIONS
Publisher: AAJ
ناول اور اس کے ترجمہ پر ناہید سلطان مرزا کا تبصرہ
***********************************************
ناول: The Ministry of Utmost Happiness
مصنفہ: ارندھتی رائے
اردو عنوان: بے پناہ شادمانی کی مملکت
اردو ترجمہ: ارجمند آرا
ارندھتی رائے کا ناول ‘‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’’ کے نام سے ارجمند آرا نے ترجمہ کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ ناول اردو میں ہی سوچا گیا تھا۔ اس کی سچائی پر اس لیے بھی یقین آتا ہے کہ ناول کا تانا بانا اُن ہی علاقوں میں بُنا گیا ہے جہاں اردو بولی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔
ترجمہ بہت عمدہ ہے اپنے سیاق و سباق کے ساتھ یہ ناول فکشن ہونے کے ساتھ حقائق کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جس کی سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا خاص طور پر کشمیر کے حالات پر اتنی سچائی سے کسی نے آج تک نہیں لکھا۔
مجھے دلّی جو کبھی شاجہان آباد تھی کا نقشہ خاص طور پر قدیم دلّی کا رائے نے اپنے مشاہدے اور ذاتی تجربے سے کھینچا ہے بہت پرلطف محسوس ہوا۔ پرانی دلّی جہاں میرے ماں باپ اور رشتے داروں کے گھر آج بھی موجود ہیں جہاں میں بہت اچھی طرح گھومنے پھرنے کے ساتھ رہ بھی چکی ہوں اسی لیے اس ناول کی اپنائیت نے مجھے جکڑ لیا۔
ناول شروع ہوتا ہے اس جملے سے ‘‘وہ قبرستان میں کسی درخت کی مانند رہتی تھی۔’’ یہی قبرستان غالباً بے پناہ شادمانی کی مملکت بنا، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں نے اسے اپنا مسکن بنایا اور نام رکھا ‘‘جنت گیسٹ ہاؤس’’۔
یہاں ‘‘وہ’’ سے کون مراد ہے وہ یعنی ‘‘انجم’’ جو آفتاب کے نام سے دلّی کے ایک حکیم صاحب کے گھر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اپنے فطری تقاضوں سے مجبور ہو کر وہ ہیجڑوں کے گھر ‘‘خواب گاہ’’ میں پہنچ جاتا ہے۔ خواب گاہ جو جامع مسجد سے متصل حضرت سرمد کے مزار کے قریب ہے جہاں کی گرو استاد کلثوم کا کہنا ہے وہ ڈیرے دار ہیجڑوں کا مسکن ہے جو قلعے میں شاہی ملازمت کرتے تھے۔
آفتاب جو خواب گاہ میں رہ کر مکمل ہیجڑا بن کر انجم نام سے ناول کا بنیادی کردار بن کر ابھرتاہے، جو ایک مرد کے جسم میں عورت قید ہے کہ مکمل نمونہ ہے اور وہ ماں بننا چاہتی ہے مگر بن نہیں سکتی اس کی یہ خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے ایک لاوارث بچی کو لا کر اس کی پرورش کرتی ہے۔ اسی دوران انجم پرانے ملنے والے ذاکر میاں کے ساتھ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دے کر اجمیر سے گجرات جاتی ہے۔
یہاں رائے نے گجرات کے فسادات کی جو بھیانک منظر کشی کی ہے اور مودی اور اس کے چیلوں کے کردار کی مکروہ تصویر کھینچی ہے۔ اس نے سچائی کے ساتھ تمام واقعات بیان کیے ہیں جنھیں دیکھ کر انجم بہت عرصے تک اپنا ذہنی توازن برقرار نہیں رکھ پاتی۔
فسادی اسے جان سے نہیں مارتے اس لیے کہ وہ ہیجڑوں کی بددعا سے ڈرتے ہیں۔ ‘‘میں قصائیوں کا سوبھاگیہ ہوں۔’’ یہی سوچ کر انجم خواب گاہ چھوڑ کر قبرستان میں رہنے لگتی ہے۔
اس کے بعد ناول کے دوسرے کردار کو جو تلوتما کے نام سے ہے آرکیٹکٹ کی طالبہ ہے مرکزی کردار ہے جس کے گرد تین مرد ہیں جو اس سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ صرف موسیٰ یسوی جو کشمیری مجاہد بن جاتا ہے حالات کے جبر کی وجہ سے اس سے شدید محبت کرتی ہے۔ ناگا جس سے وہ مجبوراً شادی کرتی ہے لیکن ایک دن اسے بھی چھوڑ دیتی ہے۔ تیسرابپلپ جو گارسن ہو بارٹ کے نام سے تلوتما بلاتی ہے یہ ایک ڈرامے کے کردار کا نام تھا جس میں تینوں مرد کردار اور تلوتما کام کر رہے تھے۔
بپلپ ڈپلومیٹ ہے اور کشمیر میں تعینات ہے۔ جہاں تلوتما صرف موسیٰ سے ملنے جاتی ہے۔ موسیٰ جو کشمیر کی آزادی کی علامت ہے جس کی بیوی اور بچی جبین فائرنگ سے شہید ہو گئیں۔
کشمیر میں حالات کے کچلے ہوئے بہت سے کردار ہیں جو آزادی کے نعرے لگاتے ہیں ہندوستانی فوج کے سامنے مزاحمتی احتجاجی کردار ادا کرتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔ ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
پہلی بار کسی ادیب نے کشمیر کے مسئلے کو اس قدر گہرائی میں جا کر ذاتی مشاہدے اور باریک بینی سے حالات کا جائزہ لے کر من و عن سچائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ واقعات کو ایک ٹھوس دستاویزی ثبوت بنا دیا ہے اور یہ بہت بہادری کا کام ہے۔
کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ایک ولن امریک سنگھ کے کردار کو بہت باریک نزاکتوں کے ساتھ جس میں سفاکیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ہندوستانی فوج اور پولیس کے ظالمانہ کردار کو بے نقاب کیا ہے تفصیل کے ساتھ واقعات کی جزیات کے ساتھ۔ تلوتما جو موسیٰ سے ملاقات کے بعد گرفتار ہوتی ہے جسے پنکی جو امریک کی دستِ راست ہے گنجا کر دیتی ہے لیکن تلوتما کو یاد ہے اس کا کالج فیلو جسے وہ گارسن ہوبارٹ کہتی ہے کشمیر میں تعینات ہے مدد طلب کرتی ہے۔ گارسن اپنے دوسرے ساتھی ناگا کو جو صحافی ہے مدد کے لیے بھیجتا ہے۔ یہاں تلوتما شیراز سینما جو تفتیش کا مرکز ہے دل ہلانے والے واقعات دیکھتی ہے۔
ناگا کی مدد سے وہ واپس آ کر ناگا سے شادی کر لیتی ہے۔
یہ شادی بھی دس سال چلتی ہے۔
تلوتما کا کردار ایک آزاد منش سادہ کردار ہے جو عورت ہو کر اپنی آرائش و زیبائش سے لاپرواہ ہے۔
وہ ایک جھگی میں رہتی ہے پھر بستی نظام دین میں ایک اسٹور نما کمرے میں وہ کیرالہ سے ہے اس کی ماں سیرین عیسائی تھی۔ باپ شائد کوئی ماں سے نچلی ذات کا تھا۔ اس کی ماں پہلے اسے ایک یتیم خانے میں ڈالتی ہے بعد میں اسے اپنا لیتی ہے۔
تلوتما کے کردار کے ذریعے اور اس کے قریب تین مردوں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا گیا۔ ناول میں صحافیانہ رنگ بھی ہے اور فکشن کا انداز بھی مجموعی طور پر رائے نے واقعات کو سچائی سے بیان کیا ہے ہندوستان کے حالات جس میں غربت کے ساتھ صنعتی ترقی کے نتیجے میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ، پھر سیاسی حالات کرپشن کے خلاف جنتر منتر پر ہونے والے دھرنے، مودی کے کردار کو بے نقاب کیا ہے۔پھر بستر کے جنگلات میں ماؤنواز تحریک اس کی ایک کارکن پر ہندوستانی فوج کے ریپ کے واقعے کے بعد ایک بچی کی پیدائش جس کے بعد وہ ماں اس بچی کو جنتر منتر پر ہونے والے دھرنے میں رکھ جاتی ہے جہاں ہندوستان بھر سے احتجاج کرنے والے جمع ہیں بھوپال سے گیس کے اخراج کے نتیجے میں معذور ہونے والے لوگ کشمیری گمشدہ جوانوں کی مائیں آزاد بھارتیہ جنتا کے نام سے بیس سال سے بھوک ہڑتال کرنے والے جو تلوتما کے دوست ہیں۔ اس اجتماع میں انجم اپنے ساتھیوں کے ساتھ تلوتما آزاد بھارتیہ جنتا کے ساتھ موجود ہیں۔
بچی کو دیکھ کر انجم اسے لے جانا چاہتی ہے۔ جبکہ دوسرے صاحب احتجاج کرتے ہیں۔ ہنگامہ ہوتا ہے۔ بچی کو تلوتما لے کر فرار ہوتی ہے۔ انجم کے ساتھی اس کا پیچھا کر کے گھر دیکھ لیتے ہیں۔
یہ بچی جس کا نام تلوتما موسیٰ یسوی کی بیٹی مہہ جبین کے نام پر رکھتی ہے تلوتما کہتی ہے یہ بچی مجھے واپس کی گئی ہے۔ کیونکہ تلوتما اپنا ایک ایبارشن کروا چکی ہے اور موسیٰ کی بچی کی موت بھی اس کے لیے صدمہ ہے۔ وہ بچی کو پا کر خوش ہے۔
پولیس جب تلوتما کے گھر پہنچتی ہے تو وہ آزاد بھارتیہ کو فون کرتی ہے وہ اسے مشورہ دیتے ہیں کہ جنت گیسٹ ہاؤس مرکز کفن دفن میں انجم سے رابطہ کرے۔
اس رابطے کے بعد تلوتما بچی کے ساتھ قبرستان شفٹ ہو جاتی ہے، جہاں موسیٰ بھی اس سے ملنے آتا ہے۔ یہ ان کی آخری ملاقات ہوتی ہے اس کے بعد تلوتما کو خبر ملتی ہے موسیٰ اب اس دنیا میں نہیں تلوتما سوگ مناتی ہے۔
یہ بچی جس کا نام جبین ہے کی ماں کا ایک خط بھی تلوتما تک پہنچتا ہے جس میں وہ اپنے بارے میں بتا تے ہوئے کہتی ہے کہ اس نے بچی کا نام ادیہ رکھا ہے جس کا مطلب ہے چڑھتا سورج۔
تلوتما جبین کا نام ادیہ جبین رکھ دیتی ہے۔
شائد یہ لڑکی آگے ارندھتی رائے کے اگلے ناول کا کوئی کردار ہو کیونکہ رائے نے اس کے بارے میں ایک امید افزا جملہ لکھا ہے۔
’’سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ مس ادیہ جبین کا ظہور ہو چکا ہے۔‘‘
یہ ایک بہت گہرا جملہ ہے جس کے کچھ بھی معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر مجھے یہ ناول بہت پسند آیا اور میں ارندھتی رائے کے بے باک قلم کی مداح ہو گئی جبکہ مجھے اس ناول میں ناول کا عنصر کم اور صحافت کا رنگ زیادہ جھلکتا محسوس ہوا۔ مگر چونکہ حقائق کو واضح کرنا مقصود تھا اور بات کسی علامت میں نہیں کہی جاسکتی تھی اس لیے واضح اور مدلل انداز نے ناول کو عام فہم بھی بنایا۔ پھر اس کی کامیابی یہ ہے کہ پہلی بار اس میں کشمیر کے واقعات کا آنکھوں دیکھا حال اور منظر کشی نے تاثر کو گہرا کر دیا۔
جہاں تک نام کا تعلق ہے ‘‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’’ اسے ہم نے سمجھا کہ وہ قبرستان بھی ہو سکتا ہے جسے انھوں نے ایک علامت کے طور پر دیکھا کہ جہاں ان کے درماندہ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ پناہ لیتے ہیں اور وہاں وہ ساری دنیا سے دور اپنی ایک الگ دنیا قائم رکھتے ہیں جہاں وہ سب بے حد خوش رہتے ہیں۔
ایک جگہ رائے لکھتی ہیں، ‘‘حضرت سرمد کے بارے میں جن کا مزار جامع مسجد دہلی کے نزدیک ہے کہ جہاں سب سے پہلے جہاں آرا بیگم اپنے بیٹے آفتاب کو لے کر جاتی ہیں جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نامکمل جنس ہے۔ جہاں وہ دعا کرتی ہیں کہ حضرت سرمد سے کہ وہ انھیں اپنے بیٹے سے محبت کرنا سکھائیں اور وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک خوشی دینے والے ولی ہیں۔‘‘
حضرت سرمد سے متعلق جو روایات مشہور ہیں ان کا بھی ذکر ہے ناول میں جہاں ناول نگار نے ‘‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’’ عنوان لکھا ہے۔ وہاں قبرستان میں تما م کرداروں جن میں انجم، تلوتما، زینب، ادیہ جبین، صدام حسین اور دوسرے ہیجڑے اور انجم کے احباب کے قیام کا ذکر ہے۔ وہیں حضرت سرمد کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ انجم سب کو لے کر حضرت سرمد کے مزار پر گئی زینب بچی جس کو ا س نے پالا تھا اس کی شادی صدام حسین سے کرنے کے بعد یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ایک دلت کردار ہے جو صدام حسین سے متاثر ہو کر اپنا نام صدام حسین رکھ لیتا ہے۔ گو بعد میں وہ اپنی اصلیت ظاہر کر دیتا ہے۔
جب یہ سب کردار حضرت سرمد کے مزار پر آتے ہیں تو رائے لکھتی ہیں ‘‘ساٹھ سال گزر چکے تھے کہ جب جہاں آرا بیگم اپنے بیٹے آفتاب کو لے کر حضرت سرمد کے پاس آئی تھیں اور ان سے کہا تھا کہ وہ انھیں اپنے بیٹے سے محبت کرنا سکھائیں۔ پندرہ سال گزر چکے تھے۔ جب انجم زینب (گھوس) کو اُن کے پاس لائی تھی جادو اتروانے کے لیے ایک سال سے زیادہ گزر چکا تھا کہ مس جبین دوم کو پہلی بار اُن کی زیارت کرائی گئی تھی جہاں آرا بیگم کا بیٹا اُن کی بیٹی بن چکا تھا اور اب زینب (گھوس) دلہن تھی۔ لیکن ان باتوں کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں بدلا تھا۔ مزار کا فرش لال تھا۔ دیواریں لال تھیں اور چھت لال تھی۔ حضرت سرمد کا خون دھویا نہیں جاسکا تھا۔
انجم نے فاتحہ پڑھتی اور اُن سے کہا کہ نئے جوڑے کو دعاؤں سے نوازیں۔
اور حضرت نے جو بے پناہ شادمانی کے حضرت ہیں بے قراروں کے صوفی، نامخشخص لوگوں کے راحت دہندہ ہیں ایمان والوں کے درمیان کافر اور کافروں کے درمیان ایمان والے ہیں۔ ایسا ہی کیا۔
یہاں رائے نے حضرت سرمد کو بے پناہ شادمانی کے حضرت لکھا۔ کیونکہ وہ بھی ایسے ہی ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو خوشیاں دیتے ہیں۔
یہاں مجھے خیال آتا ہے شاید رائے نے حضرت سرمد کو بے پناہ شادمانی کا مرکز قرار دے رہی ہیں یا اُس قبرستان کو جو جنت گیسٹ ہاؤس کفن دفن مرکز کے نام سے انجم نے بنایا۔
یہ ناول ہندوستان کے سیاسی منظرنامے سماجی تبدیلیوں اور حکومت کی نااہلی، ریاستی تشدد اور جبر کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے ارندھتی رائے کا اپنا ایک بے باک انداز ہے۔ غالباً وہ گالیاں جو نچلے غریب طبقوں میں اپنے غصے کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں لکھی گئی ہیں۔اُن کے کردار معاشرے کے پسے ہوئے لوگ ہیں لیکن وہ مضبوط ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں جیسے خوش رہنا چاہتے ہیں رہتے ہیں حتیٰ کہ کشمیر میں فوج اور پولیس سے دوبدو لڑنے والے شہری بھی آواز بنا کسی خوف اور ڈر کے بلند کرتے ہیں۔ اپنے حق اپنی آزادی کے لیے نسل در نسل لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک جگہ وہ لکھتی ہیں ’’کشمیر میں کوئی بھی مارا جاسکتا ہے اس لیے کہ وہ زندہ ہے۔‘‘
ایک جگہ موسیٰ کہتا ہے، ‘‘ہمارے کشمیر میں جو لوگ مر چکے ہیں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور جو زندہ ہیں وہ مر چکے ہیں جینے کا ڈھونگ ہے۔‘‘
ایک جگہ وہ لکھتی ہیں، ‘‘دنیا والے کشمیر میں لاشوں کے ڈھیر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پیرا ملٹری اب پیلٹ گن استعمال کر رہی ہے جس سے لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔ یہ انھیں مارنے سے بہتر ہے مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ جو لڑکا ایک آنکھ کھو چکا ہے وہ دوسری کا خطرہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ اس قسم کے غیض و غضب کا آپ کیا کریں گے۔‘‘
موسیٰ ایک جگہ کہتا ہے ‘‘بڑے بڑے ملک راتوں رات تباہ ہو جاتے ہیں ایک نہ ایک دن کشمیر بھی انڈیا کو خود کو اسی طرح تباہ کرنے پر مجبور کر دے گا۔ ہو سکتا ہے تب تک تم لوگ سب کو اندھا کر چکو۔ لیکن تمھارے پاس پھر بھی آنکھیں ہوں گی، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم نے ہمارے ساتھ کیا کچھ کیا تم ہمیں تباہ نہیں کر رہے ہو بلکہ ہماری تعمیر کر رہے ہو۔ تباہ تو تم خود کو خود ہی کر رہے ہو۔‘‘
ارندھتی رائے کے اس ناول میں ریاست کے اور اس کے ان اقدامات کے خلاف احتجاج ہے جس کے ذریعے ظلم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا چاہے وہ گجرات ہو یا کشمیر، بھوپال ہو یا جھونپڑ پٹی کو اجاڑ کر نئی تعمیرات کرنا اندھا دھند صنعتی ترقی، کرپشن، اقتصادی بدحالی، فٹ پاتھوں، نالوں پر سونے والے لوگ، گائیوں کے مرنے کی آڑ میں دلتوں پر ظلم، گائیوں کے مرنے پر مسلمانوں کا قتل، مذہب کی آڑ میں فسادات برپا ہونا، یہ سب مسائل اکٹھے اس ناول میں نظر آتے ہیں۔
رائے نے ریاست پر جمہوری اداروں کو تباہ کرنے کا بھی ذکر کیا ہے امیر بہت امیر اور غریب بہت غریب ہو گیا ہے۔
ان کے تمام کردار دنیا سے تنگ آ کر بھاگ کر قبرستان میں اپنی شادمانی کی مملکت قائم کرتے ہیں۔
جہاں کے منتظم بھی وہی ہیں۔
رائے نے ایک ہندوستانی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا ،جس میں اُن سے سوال کیا گیا کہ وہ غریبوں کی مدد کرنے کے لیے سیاست میں کیوں نہیں آتیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘صرف سیاست کے ذریعے ہی غریبوں کی خدمت نہیں ہوتی بلکہ ایک لکھنے والا ایک صحافی بھی ان کی خدمت کر سکتا ہے اور میں نے یہی راستہ چنا ہے۔‘‘