Mohabbat Sath Rakhta Hun

MOHABBAT SATH RAKHTA HUN محبت ساتھ رکھتا ہوں

Inside the book
MOHABBAT SATH RAKHTA HUN

PKR:   1,200/-

Author: KAIF IRFANI
Pages: 176
ISBN: 978-969-662-504-9
Categories: POETRY
Publisher: BOOK CORNER

کیف عرفانی کے مجموعۂ کلام کا نام ہی اُس کا پیغام ہے یعنی محبّت۔ یہی وہ اسمِ اعظم ہے جو سارے دُکھوں کا درمان ہے۔ کیف نے بلاشبہ بُرائی اور بدکرداری کی شدید مذمّت کی ہے اور حُسنِ کردار، نیکی اور صداقت کی طرف داری میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی اور اپنا وزن خیر کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ میں اس مجموعے کی اِشاعت پر کیف کے عزیزوں اور اچھی شاعری کے متوالوں کو دِلی مبارک دیتا ہوں۔
انور مسعود

جو لوگ کیف عرفانی کو جانتے ہیں اُنھیں بخوبی علم ہو گا کہ وہ زندگی بھر ’’جھکایا سر، نہ کوئی التجا کی‘‘ پر کاربند رہے۔ میر تقی میرؔ تو نامرادانہ زیست کرتے تھے مگر عرفانی صاحب ایک بے رِیا، فقیرانہ، درویشانہ اسلوبِ زیست کے مالک تھے۔ ان کی زندگی درس و تدریس میں گزری۔ ان کا مقصود فقط پڑھنا پڑھانا نہ ہوتا تھا، بلکہ وہ اپنے بقول: ’’جوانوں میں شعورِ کربلا تقسیم‘‘ کرتے تھے۔ ہمارے گردوپیش جو کچھ ہوا ہے، عام آدمی اس پر نگاہِ غلط انداز ڈال کر، پھر اپنے آپ میں لوٹ جاتا ہے، مگر ایک حسّاس شاعر (اور ہر شاعر کم و بیش حسّاس ہوتا ہے) اپنے معاشرے اور گرد و پیش سے گہرا اثر قبول کرتا ہے، چنانچہ کیف صاحب کی شاعری میں معاشرے کے زِشت و خوب اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور خُوب دکھاتے ہیں۔
رفیع الدین ہاشمی

کیف عرفانی کی غزلیں شاعری سے زیادہ روحانی اور صوفیانہ آپ بیتی کی حامل ہیں۔ کہیں روزمرّہ اور کہیں اُردو محاورہ سے تقویت رکھتی یہ شاعری سیدھی ’’از دِل خیزَد بَر دِل ریزَد‘‘ کی مثل ہے۔ کیف عرفانی سے میری ایک ہی ملاقات ہے لیکن ادھوری نہیں پوری کیونکہ میں اُن سے نہیں، اُن کی شاعری سے ملا ہوں۔ یہ بات چیت نہیں تھی مکالمہ تھا جو اپنی نوعیت کا جُدا ترین تجربہ ہے۔ اُمید ہے یہ مجموعہ اُردو شعرا سے داد لے گا اور عوامی سطح پر بھی مقبول ہو گا۔
اختر عثمان

میری خوش قسمتی ہے کہ حضرت کیف عرفانی جیسے مایہ ناز ادب کے اُستاد سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ آپ نے کبھی اپنے نام و نمود کے لیے کاوِش نہیں کی بلکہ تمام عمر محض سکھانے کا عمل جاری رکھا۔ اُردو اور پنجابی زبان و بیان پر عمومی و خصوصی اغلاط کی تصحیح میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ اوپر سے آپ کی گہری نظر اور مشاہدہ جس شاعرانہ کلام کی شکل میں ہوتا حاضرین و سامعین کے دل چھو لیتا۔ آپ کے وصال کے بعد اس کتاب کی اشاعت ایک کارِخیر ہے۔ آپ کی شخصیت اور کتاب پر کچھ کہنا ایک سعادت ہے جو میرے حصے میں بھی آئی ہے۔ جناب کیف عرفانی کے لیے دُعائیں اور جذبۂ عقیدت ہے۔
محمد ادریس قریشی

کیف عرفانی کی شاعری ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ وہ جب تک بقیدِ حیات رہے، شہرت گریزی سے کام لیا۔ کردار اور کردار سازی ان کا شعار تھا۔ کم حوصلہ اشخاص ان سے زندگی گزارنے کے لیے خوشہ چینی کرتے رہے۔ شاگردوں کے سینے غیر نصابی علوم سے منور کیے۔ آپ جیسے جیسے ’’محبّت ساتھ رکھتا ہوں‘‘ پڑھتے جائیں گے آپ ایک اُستاد ، ایک شاعر، ایک رجعت پسند واعظ، ایک مجاہد اور ایک عالم سے متعارف ہوتے جائیں گے۔
محمد ضیغم مغیرہ

جہانِ شعر و سخن میں کیف عرفانی صاحب کی شاعری ایک توانا آواز اور بےنواؤں کی نوا ہے۔ غفلت کی نیند کے ماتوں کے لیے صورِ اسرافیل ہے۔ آپ نے اپنے افکارِ تازہ سے ’’نخچیروں کا اندازِ نگہ‘‘ بدل ڈالا اور کمال ہنر مندی سے ’’طریقۂ شہبازی‘‘ فاش کیا۔ امیرِ شہر کے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا اور حکمرانوں کے چہرے سے ساحری کی نقابِ سیاہ اُلٹ دی۔ ان کی چیرہ دستیوں کو عیاں کیا۔ نوائے قیصری ہو یا طلسمِ سامری، اُنھوں نے توڑ کر رکھ دیا۔
آپ نے عمر بھر مشرقی روایات اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاس داری و آب یاری کی۔ تصنع اور بناوٹ کا ان کی زندگی میں دخل نہیں تھا۔ سادگی میں ہمیشہ سہولت محسوس کی۔ بےہنگم شہری زندگی ان کی طبعِ نفیس کے موافق نہ تھی۔ دیہی زندگی کی کشش، صاف ستھری فضا، فطرت کے قریب تر ماحول انھیں مسحور کرتا، مرغانِ خوش نوا کے زمزموں اور بلبلِ بے تاب کے نغموں میں ہمیشہ انھیں کشش محسوس ہوتی۔
کیف عرفانی صاحب کی شاعری میں قدرتی مناظر اور دیہی زندگی کی جھلکیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ ذخیرۂ علم و ادب میں، ’’محبّت ساتھ رکھتا ہوں‘‘ گراں قدر اور بیش بہا اضافہ ہے۔
پروفیسر مظہر دانش

RELATED BOOKS