SULTAN SHAHAB UD DIN GHORI (DELUX) سلطان شہاب الدین غوری (ڈیلکس)
PKR: 1,250/- 625/-
Author: PROF. HAMEEDULLAH SHAH HASHMI
Pages: 288
Year: 2020
ISBN: 978-969-662-250-5
Categories: HISTORY BIOGRAPHY
Publisher: BOOK CORNER
سلطان محمود غزنوی کی وفات اور سلطان شہاب الدین محمد غوری کی غزنی پر حکومت کے دوران ایک سو پینتالیس سال کا وقفہ ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان میں صرف پنجاب کی اس حکومت کو غزنی کی حکومت کا صوبہ بنایا جو ہندو شاہیہ خاندان کے قبضے میں تھی اور جس کی راجدھانی لاہور تھی۔ اس کی وفات ۱۰۳۰ء کے بعد خاموشی رہی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد ایک مسلم حکمران شہاب الدین محمد غوری ہندوستان میں داخل ہوا۔
آجکل یہ پوچھا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مقبرہ محمد غوری کیوں تعمیر کرایا، جبکہ ان کا مقبرہ غزنی میں تھا؟ انہوں نے اپنے میزائل کا نام ’’غوری میزائل‘‘ کیوں رکھا؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ انہیں سوالات کے جواب میں یہ کتاب لکھنے کی کوشش کی ہے۔
۱۱۳۷ء میں غزنی کی ترک شاہیہ حکومت ختم کر کے شہاب الدین محمد غوری نے نئی افغان حکومت قائم کی۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ مشترکہ حکومت کرتا تھا۔ بھائی غور اور ہرات کا حکمران تھا۔ انہوں نے شہاب الدین محمد غوری کی غزنی اور ہندوستان کے معاملات سونپ دیے۔
۱۱۸۶ء تک محمد غوری نے ملتان، سندھ، پشاور اور لاہور کو فتح کر کے شمالی ہندوستان کو غزنی کی حکومت میں شامل کر لیا۔ لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد سلطان محمد غوری نے قرامطہ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا، جنہوں نے اس کے بھائی کو شہید کیا تھا۔ وہ اب ملتان کو چھوڑ کر انہل واڑہ کو اپنا مرکز بنائے ہوئے تھا۔ سلطان نے انہل واڑہ پر حملہ کر کے قرامطہ کے اقتدار کو بکھیر کر رکھ دیا۔
۱۱۹۲ء میں راجہ پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر دہلی اور اجمیر پر قبضہ کر لیا۔ غوری کے ایک جرنیل قطب الدین ایبک نے گجرات میں فتوحات حاصل کیں۔ انہل واڑہ اور کوہ آبو کو بزورشمشیر فتح کیا۔ بندھیل کھنڈ میں کالنجر، کاسی اور روہیل کھنڈ میں بدایوں تک کا علاقہ فتح کرتا چلا گیا۔ اس کا ایک سردار محمدبختیار خلجی بہار کی طرف بڑھ گیا۔ بہار، بنگال اور آسام کو فتح کر کے تبت فتح کرنے ہمالیہ پر چڑھ گیا۔ لیکن راستے کی دشواریوں کے پیش نظر بنگال واپس آ گیا۔ اس نے بنگال کی راجدھانی لکھنوتی کی جگہ دوسرا شہر آباد کر کے اس کا نام غور (گوڑ) رکھا اور اسے بنگال کی راجدھانی بنایا۔ اس طرح غزنی کی نئی حکومت بنگال اور آسام تک پہنچ گئی اور شمالی ہندوستان میں کوئی ایسی طاقت باقی نہ رہی جو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی دعوےدار ہوتی۔ اب یہاں نئے مسلم، ترک، افغان، ایرانی، عرب، تاتاری اور منگول سب مل کر دہلی کی مسلم حکومت کے دست بازو بن گئے۔ یہاں اب عالموں، درویشوں، بزرگوں اور دانش وروں کا آنا بھی شروع ہو گیا۔ اور ایک نئی ’’مسلم ہندوستانی تہذیب‘‘ کی ابتدا ہوئی اور اسلام پھیلنے لگا۔یہ مسلم ریاست کے بانی کہلائے۔
شہاب الدین غوری نے ہندوستان میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی۔ محمد غوری ایک عظیم حکمران تھا بلکہ بہترین جرنیل، اعلیٰ منتظم، جہاندیدہ سیاست دان اور قابل مدبّر تھا۔ اس مرد مجاہد پر بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔ مدت سے میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ محمد غوری کے متعلق ایک کتاب لکھوں۔ شہاب الدین کی منفرد شخصیت پر قلم اٹھانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ان کی زندگی کے متعدد گوشے تاریخ کے اوراق پر نہیں ملتے۔ پھر بھی میں نے تمام شامل مواد مستند تاریخی کتب سے اخذ کیا ہے۔ ضروری مقامات پر حوالہ جات بھی درج کیے گئے ہیں، جس نے اس کی افادیت میں بے حد اضافہ کیا ہے۔
یہ کتاب ہر گز پایۂ تکمیل تک نہ پہنچتی اگر بک کارنر جہلم کے مالک اَمر شاہد اِس میں بڑھ کر دلچسپی نہ لیتے اور مجھے نایاب کتب اور دیگر مواد میسر نہ کرتے۔ امر شاہد کو خود بھی شہاب الدین غوری سے گہری عقیدت ہے۔ وہ اس مردِ مومن مجاہد کے کارناموں کو شائع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
سیاسی حالات کو بیان کرتے ہوئے سماجی اور اقتصادی حالات کو بھی سلجھے ہوئے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نئی نسل کو ان کے اسلاف کے کارناموں پر روشنی ڈالنے کی یہ ایک کڑی ہے۔ بک کارنر، جہلم کی شائع کردہ تاریخی کتب میں یہ وصف نمایاں ہے کہ اس میں جامعیت اور اختصار دونوں یکجا ہوتے ہیں اور واقعات کے بیان کرنے میں پوری غیرجانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ بک کارنر، جہلم اس سلسلے میں مبارک باد کا مستحق ہے کہ وہ نئی نسل کو ’’ہندوستان میں مسلم ریاست کے بانی‘‘ کے تاریخی حالات اور حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے شائع کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ معیاری اور اعلیٰ کتب کی اشاعت کے حوالے سے ملک اور بیرون ملک میں بہت مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ادارہ کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا کرے۔ (آمین)
پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی