Swadeshi Rail

SWADESHI RAIL سودیشی ریل

SWADESHI RAIL

PKR:   800/- 560/-

Author: SHAUKAT THANVI
Pages: 160
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-604-6
Categories: SHORT STORIES HUMOUR
Publisher: BOOK CORNER

مدتیں گزریں جب میں نے ’’سودیشی ریل‘‘ پڑھی تھی۔ مگر اس کے بہت سے جملے آج تک اس طرح یاد ہیں جیسے یہ مضمون ابھی ابھی پڑھ کر ختم کیا ہو۔ شوکت تھانوی بے حد ہر دلعزیز تھے اورآج سے نہیں ’’سودیشی ریل‘‘ کے زمانے سے اب تک ان کی ہر دلعزیزی میں اضافہ ہوتا رہا تھا۔ یہ مقبولیت انھیں دونوں ملکوں میں حاصل تھی۔ وہ اپنی زندگی میں ایک طویل عرصے تک اپنے الفاظ اور اپنی آواز کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو ہنساتے رہے اوراس روتی بسورتی اعصاب زدہ دنیا میں اگر کوئی انسان اپنی فطری شگفتگی کے ذریعے دوسروں کو تھوڑی دیر کے لیے محظوظ اور بشاش کر سکے تو ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کوئی دوسرے شوکت تھانوی اب دنیا میں نہیں آئیں گے۔
(قرۃ العین حیدر)

شوکت صاحب کی تمام تصنیفات میں جو اہمیت اِس کتاب کو حاصل ہے، وہ ان کی کسی اور کتاب کو میسّر نہیں۔ اس مجموعے میں شوکت صاحب نے اپنے ان تمام مضامین کو یکجا پیش کیا ہے جو نقّادانِ فن کے نزدیک فنّی اعتبار سے شوکت صاحب کے چوٹی کے مضامین میں شمار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ نئے مضامین بھی شامل کر لیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سارے نئے مضامین اس معیار کے مطابق نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے تو شوکت صاحب کو ’’وجہ تسمیہ‘‘ میں لکھنا پڑا کہ اس انتخاب میں میرا بھی حصّہ ہے۔ پھر بھی میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ نئے مضامین شوکت صاحب کی نظر میں لاکھ بُرے سہی، لیکن ادبی حیثیت میں ان مضامین کو بھی اُردو ادب میں ایک بلند مرتبہ حاصل ہو گا۔ ان شاء اللّٰہ۔
(محمد طفیل )


نظم، نثر، تمثیل، افسانہ، شخصیت نگاری، نامہ نویسی، ریڈیو، صحافت، بذلہ سنجی، بدیہہ گوئی، شوکت کی طبع زبان اور قلم یکساں، ہر میدان میں یکساں طراری سے رواں رہتے۔ ان کی ظرافت میں تکلف اور آورد کو دخل نہ تھا۔ بے تکلف اور بے تکان، جیسے بولتے ویسے لکھتے۔ نہ گفتار میں ان کی طبع کو غیر حاضر پایا نہ تحریر میں کبھی انھیں قلم پر زور دیتے دیکھا اور اس مشاقی کا راز ریاضت نہ تھی، ان کی خداداد ذہانت تھی جو اکتساب کی محتاج نہیں ہوتی۔
(فیض احمد فیض)

شوکت کی بذلہ سنجی، حاضر جوابی، لطائف و ظرائف جس رنگ و ڈھنگ کے تھے اب وہ دوسرے اُردو بولنے اور لکھنے والوں میں سے شاید ہی کسی کو حاصل ہوں اس لیے کہ شوکت نے جس فضا، جس مقام اور جس دور میں آغازِ حیات کیا تھا اور زندگی کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہ جس مقام اور جس دور پر آ پہنچے تھے، ان تمام طے کردہ راہوں کے مناظر اپنے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کی لیاقتیں بھی اور حماقتیں بھی ان کے ذہن پر مرتسم تھیں اور اب نئے مقام اور نئے ماحول پر وہ پرانی حماقتوں اور نئی حماقتوں کو یکجا کر کے بیک وقت دونوں کو آئینہ دکھانے پر قادر تھے۔ پرانا دور شوکت کے ساتھ ہی انتقال کر گیا اور نیا دور … خدا بچائے۔
(حفیظ جالندھری)

RELATED BOOKS