Jin Se Mil Kar Zindagi Se Ishq Ho Jaye Woh Log

JIN SE MIL KAR ZINDAGI SE ISHQ HO JAYE WOH LOG جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

Inside the book
JIN SE MIL KAR ZINDAGI SE ISHQ HO JAYE WOH LOG

PKR:   2,500/- 2,000/-

Author: SYED WAQAS JAFRI
Pages: 214
ISBN: 978-969-662-505-6
Categories: BIOGRAPHY MEMOIRS KHAKAY / SKETCHES
Publisher: BOOK CORNER

مدعا کیا ہے؟

قارئین محترم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ دوستوں سے متعلق میری پہلی کتاب ہے۔ مجھے ان مضامین کو خاکہ قرار دینے میں ذرا ترّدد ہے۔ خاکہ نویسی اُردو ادب کی ایک باقاعدہ صنف اختیار کرچکی ہے جس کو احاطہ تحریر میں لانے اور جانچنے کے کچھ اصول و ضوابط بھی ہوں گے۔ چند استثنیٰ کے ساتھ میں نے یہ خاکے لکھے نہیں بلکہ مجھ سے سرزد ہوئے ہیں۔ ان خوب صورت لوگوں کی خدمات، ان کی یادیں اور ان کے ساتھ گزرے لطیف لمحات نے میرے دل کو مائل اور قلم کو متحرّک کیا بقول شاعر:

مجھ کو شاعر نہ کہو، میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیسے جمع تو دیوان کیا

اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں ان رسمی معاملات سے ذرا دُور ہوں۔ خاکہ کیونکر لکھا جاتا ہے، اچھے خاکے میں خوبیاں کیا ہوں گی، کس چیز سے لکھتے ہوئے گُریز کرنا چاہیے یا طوالت کے مروّجہ اصول کیا ہیں، زبان و بیان کیا چیز ہے، یہ باتیں میرا موضوع نہیں رہیں۔ اگر کچھ پڑھا ہے تو وہ بھی یونہی بس وقت گزاری کا بہانہ سمجھ لیجیے۔ کسے خبر تھی کہ کل کلاں اپنی پریشاں خیالی یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ایک پوری کتاب تیار ہو جائے اور پھر اس پر دیباچہ لکھنے کی نوبت بھی آئے۔ نہ پہلے احساس تھا اور نہ جب میں یہ مضامین قلم بند کر رہا تھا تب معلوم ہوا کہ کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری بھی مجھے لینا ہو گی۔ جب کئی مضامین جمع ہو گئے تو خیال آیا کہ انھیں کتابی صورت میں مرتّب کروں۔ اس کا قصور بھی جیسا کہ عمومی روایت ہے میں اپنے دوستوں کے کاندھے پر نہیں رکھتا کہ ان کے پیہم اصرار نے مجھے ان صفحات کو چھپوانے پر مجبور کیا، وہ نہ کہتے تو مجھے خیال تک نہ آتا وغیرہ وغیرہ۔ ان رسمی باتوں سے میرا گُریز ہے۔ میں کسی رسمی تکلّف کے بغیر یہ اعتراف کرتا ہوں کہ یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے، میری ہی دیدہ دلیری کا نتیجہ ہے، اس کے حسن و قبح کا ذمہ دار بھی مجھ فقیر کو ہی سمجھیے۔

اچھا اب اگلی سنیے، اس کتاب میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جن سے یہ ناچیز ملا تک نہیں۔ لیجیے اب آپ کہیں گے کہ کیا آدمی ہے بھئی، نہ دیکھا نہ بات کی اور حضّت نے خاکہ (اگر آپ کو یہ خاکے لگیں، ویسے مجھے اصرار نہیں) جما ڈالا۔ آپ کا اصرار درست، میں بھی اس شوریدہ سری کے لیے خود کو قصوروار گردانتا ہوں لیکن بات یہ ہے کہ یہ مضامین کسی ادبی ضرورت کے لیے لکھے بھی نہیں گئے ہیں۔ یہ فقط ایسے چند اوراق ہیں جو دوستوں کی محبت نے مجھ سے لکھوائے ہیں۔ اگر زمانے میں خلوص و محبت کی کوئی قیمت باقی ہے تو ان اقدار کو آپ آئندہ صفحات میں محسوس کرنے کی توقّع رکھ سکتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ میں نے زندگی میں اورکچھ حاصل کیا ہے یا نہیں لیکن ایک بات کا دعوی کر سکتا ہوں کہ میں نے دوست کمائے ہیں۔ وہ مقام جہاں پہنچ کر ہر مادی و غیر مادی شے بے وقعت محسوس ہونے لگتی ہے، وہاں بھی میں نے انسان کے انسان کے ساتھ تعلق کو ایک با معنی چیز پایا ہے۔ مذہب کے علاوہ شاید یہی چیز ہے جو مجھے یہاں تک لے آئی ہے۔ تھامس کارلائل نے تو ویسے ہی یہ نہیں کہا:

"The history of the world is but the biography of great men."

یقیناً اس نے یہ بات دُنیا کے ان عظیم انسانوں کی بابت کہی ہے جن کے نقوش کارزارِ ہستی پر مرتّب ہوئے ہیں لیکن میرے جیسے ایک عامی کے لیے بھی یہ بات غیر معمولی ہے کہ اسے ایسے دوست میسّر آئے جن سے زندگی کا عرفان اور جینے کا مزّہ ملا۔ غالبؔ نے تو زیست کا مزہ ’عشق‘ سے لیا مگر ہماری زندگی تو دوستوں کی محبت کی مقروض تھی اور رہے گی۔

لیکن وائے ہو کہ دُنیا، دُنیا ہے۔ آدمی ایک صبح اٹھتا ہے اور خبر ملتی ہے کہ فلاں دوست سے اب ملاقات نہ ہو سکے گی۔ کتنا ہی عرصہ یقین نہیں آتا کہ وہ پچھلے ہفتے کی ملاقات ہماری آخری ملاقات تھی، وہ آدمی یہیں کہیں ہے لیکن اب آنکھیں اسے دیکھ نہ پائیں گی۔ یہ بے چارگی ہی شاید وہ بنیادی کیفیت ہے جو ازل سے انسان کے ساتھ ہے اور شاید ابد تک رہے، خوشی و غمی کے معیار زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ احساس دنیا کے پہلے انسان کو بھی کبھی نہ کبھی ہوا ہو گا اور شاید آخری آدمی بھی اس سے گزرے۔ کیسی بے بسی ہے کہ وقت ہاتھ سے پھسلتا جاتا ہے اور آپ کچھ کر نہیں سکتے۔ یہ کیفیات و احساسات مجھ پر اکثر طاری ہوتے رہے ہیں اور اس کتاب کے اکثر مضمون میں نے انہیں کیفیات کے زیر اثر لکھے ہیں۔

دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اس لفظ کو وسیع تر معنوں میں برتا ہے، وگرنہ جن شخصیات سے آئندہ صفحات میں آپ کی ملاقات ہو گی ان میں سے اکثر سے میرا عقیدت، تلمُّذ یا نیاز مندی کا رشتہ ہے۔ اکثر لوگ ایسے ہیں جنھیں دُنیا جانتی ہے، ان کے کارناموں کا یہاں تذکرہ سورج کی وکالت کے مترادف ہو گا جس کا مجھے یارا نہیں۔ نہ وہ زبان ہے نہ قلم، کان چُھوتا ہوں۔ پھر بھی دل میں توقع ہے کہ ان کے چاہنے والے جب ان مضامین کو دیکھیں تو شاید وہ بھی وہی کچھ محسوس کر پائیں جو میں نے کیا ہے۔

آخر میں جمعیت کا ذکر کیے بغیر بات ادھوری رہے گی جس کے ساتھ میرا تعلّق اب چار دہائیوں سے زائد پر محیط ہے۔ اس تنظیم میں رہتے ہوئے جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا وہیں میں اپنے بہترین دوستوں کے لیے بھی جمعیت کا ہی شرمندۂ احسان ہوا۔ ان اوراق میں دوستوں کا جو گلدستہ جمع ہے اس کی بندش کی گیاہ بجا طور پر جمعیت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں اگر کوئی خوبی کسی کو نظر آئے تو اسے میری طرف سے اس پرشکوہ تنظیم کے لیے خراجِ عقیدت تصوّر کیا جا سکتا ہے۔

سید وقاص جعفری

RELATED BOOKS