JANGLOOS (VOL: 1) جانگلوس (جلد اول)
JANGLOOS (VOL: 1) جانگلوس (جلد اول)
PKR: 3,000/- 2,100/-
Author: SHAUKAT SIDDIQUI
Pages: 520
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-583-4
Categories: NOVEL URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
یاد آتی ہیں، اُس زمانے کی باتیں۔ سب رنگ 90 فیصد کہانیوں کا رسالہ تھا۔ دل چسپ اور اعلیٰ درجے کی کہانیوں کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے جاتے۔ شمالی ناظم آباد میں اُردو کے چند مقبول ترین ناولوں میں ایک ’’خدا کی بستی‘‘ کے خالق شوکت صدّیقی گھر سے دو تین گلیاں پیچھے رہتے تھے۔ تین چار سال مغرب بعد ہفتے میں دو تین مرتبہ خدمت میں حاضری لازم قرار دی تھی کہ ’’خدا کی بستی‘‘ جیسا کوئی ناول یا سرگزشت لکھنے پر آمادہ کیا جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ثقہ فسانہ نگار، ڈائجسٹ رسالوں میں اپنی تحریروں کی اشاعت سے گریزاں رہتے تھے۔ کچھ ایسی شہرت ہو گئی تھی کہ ڈائجسٹ تیسرے چوتھے درجے کی تحریریں چھاپتے ہیں اور لوگوں کو بگاڑنے، توہمّ پرستی کی تلقین کا سبب بن رہے ہیں۔ شروع شروع میں، خصوصاً کراچی کے ڈائجسٹوں میں جادو ٹونے یا جن بھوت، پریوں، دم، اور ماورائی، دیو مالائی قسم کے قصّے کثرت سے شائع ہوتے تھے۔
شوکت صدّیقی، ایک نہایت خوش طبع، خوش وضع ادیب، صحافی اور بنیادی طور پر کہانی کار تھے۔ دل پر اثر کرنے والی حقیقی زندگی کی کہانیوں کی تخلیق میں ملکہ حاصل تھا۔ اُن کی مجلس میں بہت کچھ حاصل ہوتا تھا، کیا حکمت آموز، بصیرت افروز، دنیا جہاں کی باتیں وردِ زباں رہتیں۔ سیاست، معیشت، سماجی اقدار اور ادب کے تذکرے۔ ادیبوں کے حال احوال، جو غیبتوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ غیبتوں کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔ محفلیں گرم، شاد آباد رہتی ہیں۔
خیر، اپنا مقصد تو اُن کی جناب میں پیشی کا ایک ہی تھا، سب رنگ کے لیے لکھنے پر تیّار کرنا۔ طرح طرح کی رَغبتوں سے انھیں مہمیز کرنے، اکسانے کی کوشش جاری رہی۔ صاف انکار بھی نہیں کر پاتے تھے، سُن کے مسکراتے کہ ہاں ہاں ضرور، پر کیا بتاؤں اِن دنوں کچھ عجب حالت ہے، لکھنے لکھانے کا موڈ ہی نہیں بن پا رہا۔ خاطر تواضع میں پیش پیش بھابھی صاحبہ بھی کبھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتیں۔ متعدد بار اُن سے بھی سفارش کروائی۔ آخر تین چار سال کی منّتِ شاقہ کے بعد حضرت قبلہ سے ہتھیار ڈلوا دیے۔
اُن کی مرضی کا معاوضہ پیش کیا گیا، جو یقیناً اُردو اخبار و رسائل میں کسی فسانہ نگار کو دیے جانے والے معاوضے میں پہلی مثال تھا۔ سب رنگ میں شائع ہونے والا اُن کا طویل ناول ’’جانگلوس‘‘ ایسا پسند کیا گیا کہ ٹی وی والوں نے سیریز بنانے کی ٹھان لی لیکن مزاجِ خسروی پر یہ کلامِ تند و ترش بار ہونا چاہیے تھا، سو چند قسطوں کے بعد اسے ناتمام کر دیا گیا۔ لوگ کہتے ہیں ’’جانگلوس‘‘ کو اس کے متن اور رُوح کے مطابق فلمانے کی مہم سرزد کر لی جائے تو ایک بڑا واقعہ ہو گا، جانے کتنے آئینہ خانے، شیش محل زد پر آجائیں گے۔ بہرحال یہ کیا کم ہے کہ شوکت صدّیقی کو کاغذوں پر ’’جانگلوس‘‘ ایک دستاویزی ناول محفوظ کرنے کا موقع مل گیا اور یہ کیا کم ہے کہ وہ خود بھی محفوظ و مامون رہے۔
شکیل عادل زادہ
(ماخوذ ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ جلد ہشتم)