AIK GADHAY KI SARGUZASHT ایک گدھے کی سرگزشت
PKR: 999/- 699/-
Author: KRISHAN CHANDER
Pages: 230
ISBN: 978-969-662-339-7
Categories: HUMOUR NOVEL
Publisher: BOOK CORNER
’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کرشن چندر کا ایک ابدی شاہکار ہے۔ حق بات یہ ہے کہ کرشن چندر اگر اس ناول کے سوا اور کچھ بھی نہ لکھتے تو بھی مسلمہ طور پر نام پاتے۔ اس ناول کو اُردو ادب میں شاید وہی مقام حاصل ہونا چاہیے جو ’’مضامینِ پطرس‘‘ کو ہے۔ اگر ’’مضامینِ پطرس‘‘ کے ذکر کے بغیر اُردو مزاح نگاری پر کوئی مضمون مکمل نہیں سمجھا جا سکتا تو یقیناً ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ سے صرفِ نظر کر کے طنز و مزاح نگاری کا تذکرہ نامکمل اور ادھورا سمجھا جائے گا۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ کرشن چندر کے افسانوں اور ناولوں کے سیکڑوں کرداروں میں سب سے مؤثّر کردار کون سا ہے تو ہم بلاتکلّف و بلا تردّد کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے شاہکار طنزیہ ناول ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کا مرکزی کردار ’’بارہ بنکی کا مسٹر ڈنکی‘‘ اس اعتبار سے باقی سب مرکزی کرداروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اُس کی ’’بلند قامتی‘‘ نے باقی سب کرداروں کو بونا اور ٹِھگنا بنا دیا ہے۔ وہ حرفِ اوّل سے حرفِ آخر تک ناول پر چھایا ہوا ہے۔ وہ بیسیوں چھوٹے بڑے کرداروں کی بارات میں ’’دُولھا میاں‘‘ ہے۔ اس کی شخصیت بے حد مؤثّر اور طرزِاستدلال منطقی اور عقلی ہے۔ اس کی ہر بات واضح، صریح اور صاف شفّاف ہے جو اس کی ذہانت اور روشن دماغی کی غمازی کرتی ہے۔ اس کی بُنیادی وجہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے کردار کے لیے نہ صرف دل و دماغ بلکہ زبان اور اسلوب بھی اپنے خالق کرشن چندر سے مستعار لیے ہیں۔ وہ اُن کے ذہن سے غور و فکر کرتا ہے اور ان کی زبان بولتا ہے۔ گویا وہ خود کرشن چندر ہے۔
جگدیش چندر ودھاون
ایک گدھے کی سرگزشت
سب سے پہلے 1955ء میں اِس ناول کا نام ہفت روزہ ’’آئینہ‘‘ کے کالموں میں اُردو داں حضرات کی نظروں سے گذرا جو اُس زمانے میں یُونس دہلوی کی اِدارت میں دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ کرشن چندر کے قلم سے ہر ہفتے ’’گدھے کی سرگزشت‘‘ نامی ایک ناول کی قسطیں شائع ہوا کریں گی۔ لیکن چند وجوہ کی بِنا پر ’’آئینہ‘‘ بند ہو گیا اور 1956ء میں یہ ناول ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کے نام سے ماہنامہ ’’شمع‘‘ دہلی میں قسط وار شائع ہونا شروع ہوا اور پھر 1957ء میں اُس کی بےپناہ مقبولیت کی بِنا پر ’’شمع بک ڈپو‘‘ نے اُسے کتابی صورت میں شائع کیا۔ ہر چند کہ ’’شمع‘‘ کوئی اَدبی رسالہ نہیں ہے بلکہ اُس زمانے میں مَیں نے اچھے اچھے اَدبی جُغادریوں کو یہ رسالہ خریدتے دیکھا۔ اُس زمانے کا اِس سلسلے کا ایک واقعہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں صُبح ہی صُبح اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تو اُن کے والدِ بُزرگوار کو بےچینی سے وَرانڈے میں ٹہلتے پایا۔ بعد میں میرے دوست نے بتایا کہ اخبار والے کے آنے کا وقت ہے اور وہ اُس کا انتظار کر رہے ہیں۔
’’اچھا اخبار کے لیے۔‘‘ میرے منہ سے بےساختہ نکلا۔
’’نہیں شمع کے لیے۔‘‘ میرے دوست نے جواب دیا۔
’’کیا تمھارے والد کو معموں کا شوق ہے؟‘‘ مَیں نے سوال کیا۔ کیونکہ کسی بارِیش بُزرگ کی جانب سے ایک فلمی پرچے کے انتظار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
’’نہیں یار، معموں کو تو وہ بےحد خراب جانتے ہیں۔‘‘
اب پُوری بات میری سمجھ میں آ گئی تھی۔ وہ صاحب دراصل ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کی تازہ قسط کے لیے بےچین تھے۔ میرے دوست نے بعد میں میرے اِس خیال کی توثیق کر دی۔‘‘
رشید الدین