BAY RANG PIYA بے رنگ پیاء
BAY RANG PIYA بے رنگ پیاء
مقام ِ جستجو ٹھہرا
”کہانی ۔! علم رکھتی ہے ؟“
” بے رَنگ پِیّاکیوں لکھا؟“
” کیاعشق لاحاصل ہے؟“
یہ وہ سوال تھے ، جن کے باعث ” بے رَنگ پِیّا“ کا ظہور ہوا۔ بے رنگی تصوف میں ایک اصطلاح ہے ۔جس کے اظہار کے لئے میرے نزدیک کہانی کا پیرائیہ سب سے لطیف ترین صورت رکھتا ہے۔ کہانی اور علم لازم و ملزوم حیثیت رکھتے ہیں۔ ”بے رَنگ پِیّا“ لکھنے کی وجہ ایک ایسے فطری انسان کی تلاش ہے جسے کائنات کا حاصل کہا جا سکتا ہے یا وہ انسان جو اس دُنیا میں اپنا حقیقی کردار ادا کرتا ہے ۔عشق ہو اور وہ لاحاصل ہو، ایسا ممکن ہی نہیںہے۔ کیونکہ عشق ہی وہ واحد قوت ہے جو رَبّ تعالی سے جوڑتی ہے ۔رَبّ تعالی کی منشا ءو مرضی کیا ہے ؟اس دنیا کو رنگوں سے کیسے بھرنا ہے ؟انسان کے مصائب و مشکلات کو کس طرح کم کرتے چلے جانا ہے ، یہ اہل عشاق ہی کا وطیرہ ہے ۔
وہ عشق ہے بے رنگ ،جس کا تعلق پاکیزگی سے ہو۔ فی زمانہ عشق کا حقیقی پن دور حاضر کی نفسانیت کے باعث اوجھل ہوگیا ہے۔اب حقیقی عشق کی معنویت کو واضح کرنا ضروری ہو گیا ہے ۔ نفسانیت کے لاحاصل پن کو عشق کا لاحاصل پن قرار دے دیا گیاہے ۔المیہ یہ ہے کہ عام طور پر یہ سمجھ بھی لیا گیا ہے کہ عشق لاحاصل ہے ، ایسا ہر گز نہیں۔عشق کی اقدار کو وہی سمجھ سکتا ہے ، جس نے عشق اُوڑھ لیا ہو۔سمندر کنارے بیٹھنے والا تیراک کی کیفیات وشعور کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ یار لوگ جس شے کو عشق سمجھ رہے ہیں، یہ عشق نہیں ہے بلکہ ”عشق کی سمجھ عشق ہی عطا کرتا ہے“ ۔یہ قول ہی بتا رہا ہے کہ عشق کا راز اہل عشق نے بے رنگی ہی میں پایا۔اگر یہ محض ایک معاشرتی مسئلہ ہوتاتو ہر کس و ناکس کو عشق کی بے پایاں قوت میسر ہوتی۔عشق وہ ہے جو توحید کا قائل ہے۔جس عشق میں توحید نہیں وہ عشق نہیں، جو عشق رَبّ تعالی کے محبوبﷺ سے نہیںملاتا وہ عشق نہیں، جو عشق یزیدیت کے سامنے انکار کا پرچم بلند نہیںکرتا ، وہ عشق نہیں۔جو عشق انسانیت کو جوڑتا نہیں وہ عشق نہیں،جس عشق میں بے رنگی کا ظہور نہیںوہ عشق نہیں، جو عشق کائنات سے نہیںجوڑتا وہ عشق نہیں،میں یہ کہتا چلوںکہ نفسانیت کا کاروبار ہر گزعشق نہیں۔
بے رنگی ہے کیا؟اس کسوٹی پر عشق کو پرکھنا، بہت آسان ہے ۔اگر عشق کی میزان پر عاشق عین معشوق نہیںہے اور معشوق عین عاشق نہیںہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عشق خام ہے۔جب عاشق عین معشوق بنتا ہے اور معشوق عین عاشق بنتا ہے تو نا عاشق رہتا ہے نہ معشوق رہتا ہے ،صرف عشق کی ذات باقی رہتی ہے۔ جس میں دوئی کی گنجائش نہیںرہتی اور یک جان و قالب کے مصداق بظاہر عشق معشوق نظر آ تے ہیں لیکن دراصل وہ ماسوائے عشق کے اور کچھ بھی نہیںہوتے ۔عاشقی اور معشوقی کے تقاضے دم توڑ جاتے ہیں۔ اور محض دوسرے کو اپنانے کا جذبہ باقی رہ جاتا ہے ۔اس بات کی تفصیل”بے رَنگ پِیّا “ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔
”بے رَنگ پِیّا “ لکھنے میں سب سے زیادہ روحانی معاملات اور مسائل تصوف کے لئے میری جنہوں نے مدد فرمائی ،وہ جناب ضیاءالرحمن ضیاءچشتی قلندر ہیں۔جن کی روحانی معاملات پر دسترس ”بے رَنگ پِیّا “ میں آپ کو پوری طرح دکھائی دے گی ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کی محافل میں مجھے بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا ۔
” بے رَنگ پیا“ ، انسان سے انسان کو جوڑنے کا محبت بھراپیغام ہے ۔
امجد جاوید