Chalta Musafir

CHALTA MUSAFIR چلتا مسافر

CHALTA MUSAFIR

PKR:   1,380/-

الطاف فاطمہ 10جون 1927ءکو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔والد فضل امین، علی گڑھ سے فارغ التحصیل اور ریاست جاورہ کے چیف سیکریٹری تھے۔علامہ فضل حق خیرآبادی اورہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھے جانے والے پہلے ناول ”نشتر“ کے خالق حسین شاہ کا علمی و ادبی کام انہیں وراثت میں ملاکہ دونوں کا تعلق ان کے خاندان سے تھا۔ اردو کے منفرد افسانہ نگار سید رفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے۔ اس قدر زرخیز وراثت کی حامل الطاف فاطمہ کی لازوال تحریریں یقینا اس قابل ہیں کہ اردوزبان و ادب انہیں فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔ ان کا تخیل بھرپور، نثرمسحور کن، کردار نگاری جان دار، منظر کشی اور جزیات نگاری طلسماتی حد تک دلآویز ہے جس باعث ان کی تحریریں پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہیں۔جیتے جاگتے محسوس ہونے والے کرداروں اور دل گداز کہانیوں کی خالق الطاف فاطمہ کبھی کسی ادبی گروہ بندی یا تحریک کا حصہ رہیں۔
الطاف فاطمہ 1947ءمیں خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے لاہورآئیں۔یہاں آکر تعلیمی سلسلے کا دوبارہ آغاز کیا۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو اور بی ایڈ کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئیں۔1987ءمیں عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ ریڈیو کے لیے فیچرز بھی لکھتی رہیں۔دورانِ تعلیم ہی باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا، ”نشانِ محفل“ ان کا پہلا ناول ہے ،یہ شاہکار ناول انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں تحریر کیا تھا۔ ان کا یادگار ناول ”دستک نہ دو“ نصاب کا حصہ ہے جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور پاکستان ٹیلی ویژن سے اس کی ڈرامائی تشکیل بھی نشر ہوچکی ہے۔ قلم کی روانی اور ادب کے ساتھ تعلق داری برقرار ہے، ادبی جریدوں میں ان کی تحریریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ انہوں نے عالمی ادب پاروں کے اردو تراجم بھی کیے۔ہارپر لی کے شہرہ آفاق ناول To Kill a Mocking Bird کا اردو ترجمہ ”نغمے کا قتل“ کے نام سے کرچکی ہیں جسے اردو ترجمے میں ایک مثال کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بنگالی، مراٹھی، تامل، گجراتی اور ہندی افسانے؛ لاطینی امریکی خواتین اور جاپانی خواتین کے افسانوں اور ایلسا مارسٹن کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق کہانیوں کو بھی اردو کے پیرہن میں ڈھال چکی ہیں۔الطاف فاطمہ ریڈیو پاکستان کے لیے تواتر سےبراڈکاسٹنگ کرتی رہی ہیں۔
”چلتا مسافر“ مشرقی پاکستان کے المیے کے پسِ منظر میں لکھا گیا ناول ہے۔ بہاری مسئلے اور سقوطِ ڈھاکہ کو اس سے پہلے نہ ہی بعد میں کسی نے اس تناظر میں سپردِ قلم کیا۔

RELATED BOOKS