Darbar e Rasool Kay Faislay

DARBAR E RASOOL KAY FAISLAY دربار رسول ﷺ کے فیصلے

Inside the book
DARBAR E RASOOL KAY FAISLAY

PKR:   2,500/- 1,750/-

کتاب ’’اقضیۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کو دنیائے عدل و انصاف میں اہم مقام حاصل ہے، ادوار اسلامی میں یقیناً یہ مجموعہ اقضیۃ الرسول عدالت ہائے اسلامی کے لیے ایک رہ نما رہی ہے اور مقدمات کے اسلامی فیصلوں کا عنوان۔ ضرورت تھی کہ عدالت ہائے پاکستان کے محترم و معزز قاضیوں (ججوں) کے لیے اسے اُردو زبان میں بہ کمال احتیاط پیش کیا جائے تاکہ عدالت ہائے پاکستان کے فیصلے روشنیٔ قرآن و حدیث سے عبارت ہوں۔ میرے نہایت اچھے دوست اور بزرگ عالی جناب محترم حکیم محمد عبدالرشید بہاول پوری صاحب نے ’’اقضیۃ الرسول‘‘ کا نہایت فصیح و محتاط ترجمہ کر کے عدالت ہائے پاکستان کی ثبات کے ساتھ مدد کی ہے۔ ریاست اسلامی پاکستان میں اس صورت حال کو بہ نگاہ تشویش دیکھنا چاہیے اور مستقبل کے لیے صحیح فیصلہ کرنا چاہیے۔
(حکیم محمد سعید)

عرض مصنف:
یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں مَیں ان شاء اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وہ فیصلہ جات بیان کروں گا، جو مجھ تک پہنچے ہیں۔ خواہ یہ فیصلہ جات اُن مقدمات سے متعلق ہوں، جن کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود طے فرمایا اور خواہ وہ ہوں جن میں فیصلہ دئیے جانے کا حکم دیا ہو- اسلامی شریعت کی رو سے جس شخص کے سپرد لوگوں کے مقدمات طے کرنے کا کام ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس حکم کے سوا کوئی فیصلہ دے، جو اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے یا جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فیصلہ فرمانا ثابت ہو چکا ہے، یا جس پر علما نے ان تین وجوہ یعنی کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اجماعِ صحابہ سے کسی ایسی دلیل کے ساتھ فیصلہ دیا، جو ان سے مستنبط ہوتی ہو۔ امام مالک، امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی حاکم کے لیے لوگوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنا جائز نہیں تاوقتیکہ وہ حدیث و فقہ دونوں کا عالم نہ ہو۔ اس کی عقل و دانائی اور زُہد و تقویٰ مسلمہ نہ ہو۔ امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ ’’منصبِ قضا کا اہل ہونے کے لیے بعض اوصاف کی ضرورت ہے۔ آج وہ اوصاف کسی میں نظر نہیں آتے۔ تاہم اگر ان میں سے یہ دو صفات بھی کسی میں موجود ہوں تو میری رائے میں اس کو منصب قضا پر مقرر کیا جا سکتا ہے اوّل علم، دوم پرہیزگاری۔‘‘ عبدالملک بن حبیب نے فرمایا ہے کہ ’’اگر علم نہ ہو تو عقل اور پرہیزگاری ہی سہی، کیونکہ عقل کی بدولت وہ کسی سے پوچھ ہی لے گا اور اس کے ذریعہ اس کے تمام نیک اوصاف اچھے ہو جائیں گے۔ پرہیزگاری کی بدولت وہ بُرے کاموں سے بچے گا اور اگر علم طلب کرے تو اُسے حاصل کر سکتا ہے۔ برخلاف اس کے اگر عقل نہ رکھتا ہو تو باوجود طلب کے اُسے پا نہیں سکتا۔‘‘

ابوعبد اللہ محمد بن فرج المالکی القرطبی رحمۃ اللہ علیہ

RELATED BOOKS