JAZU BHAIYYA جاذو بھیا
PKR: 1,200/- 840/-
Author: SAMEENA NAZIR
Binding: hardback
Pages: 215
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-638-1
Categories: SHORT STORIES
Publisher: BOOK CORNER
On Sale: 01 December 2025
ثمینہ نذیر کا فکشن ہمیں مضطرب کرتا ہے ۔ یہ اضطراب ان سچائیوں کے روبرو آنے کا نتیجہ ہے جنھیں ہم اپنی روزمرہ دنیا سے مسلسل بے دخل کرتے رہتے ہیں، اور خود اپنے متعلق ایک مثالیہ تشکیل دینے کی مشقت میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کڑی اور کچھ صورتوں میں کڑوی سچائیوں کا تعلق صنفی، نسلی، مذہبی، قومی تفریق سے بھی ہے اور انسانی داخل میں جاری کش مکش سے بھی ہے۔ گویا جنھیں ہم اپنے سماج، تصورات، بیانیوں اور کلامیوں سے خارج کرتے ہیں، ثمینہ نذیر انھیں اپنے فکشن میں سامنے لاتی ہیں اور زوردار اسلوب میں واپس لاتی ہیں۔ اس ضمن میں، وہ ترقی پسندانہ حقیقت نگاری کو کینن کی مانند بروئے کار لاتی ہیں، اور ناپسندیدہ، دھتکارے گئے، دربدر کیے گئے کرداروں (نسوانی کرداروں اور ان کی باطنی دنیا کو بہ طور خاص) کو اپنے فکشن کے مرکز میں لاتی ہیں، اور ان سے ایسے اعمال سرزد کرواتی ہیں جو مقتدر اور اشراف کو سیخ پاکرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے فکشن کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ وہ اُردو افسانے میں، غیرمسلم کرداروں کو اہم مقام دیتی ہیں۔ جدید عہد سے، اُردو فکشن کی زمین، غیر مسلم کرداروں پر تنگ ہوتی چلی گئی ہے۔ اس سے اُردو فکشن، صرف ماضی کے ثقافتی تنوع ہی سے محروم نہیں ہوا، انسانی صورتِ حال کو پیش کرنے میں بھی تنگیِ نظر کا شکار ہوا ہے۔ ثمینہ نذیر کی کہانیوں میں ہم انسانی صورتحال کا قدرے وسیع تصور ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے اسلوب کا اہم کردار ہے۔ ان کے پاس کسی صورتِ واقعہ و صورتِ حال کو بیان کرنے والی لچک دار زبان ہے، یعنی سلینگ سے لے کر نفیس و بامحاورہ زبان۔
(ناصر عباس نیّر)
ثمینہ نذیر گزشتہ چند سال میں اُردو ادب کے ناول اور افسانوں کی دنیا میں ایک نمایاں اضافہ ثابت ہوئی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’کلّو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تو اسے ادب کے قدر دانوں نے سراہا۔ اس کے بعد ناول ’’سیاہ ہیرے‘‘ نے تو جیسے افریقا کو اُردو ادب میں غالباً پہلی بار روشناس کرایا۔ ان کی کہانیوں اور ناول میں کہانی کی بُنت اور کرداروں کا رچاؤ خاصا پختہ نظر آتا ہے۔ بہت جلد وہ اُردو فکشن کے بڑے لکھنے والوں میں شمار ہوں گی۔
(ناظر محمود)
ثمینہ نذیر روزمرہ زندگی کے عام کرداروں کے گرد جادوئی کہانیاں بُنتی ہیں۔ چاہے وہ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’’کلّو‘‘ کے مضبوط نسوانی کردار ہوں، ناول ’’سیاہ ہیرے‘‘ کے کثیر الجہتی مرکزی کردار، یا ’’جاذو بھیّا‘‘ کے رنگا رنگ کرداروں کا قافلہ، سب قاری کے ذہن پر ایک دیر پا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔
(حُوری نورانی)
ثمینہ نذیر کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہمارے خطہ کی روزمرہ زندگیوں کی بے باکی سے عکاسی کرتا ہے، تمام ان تفاصیل کے ساتھ جو ہم سے پوشیدہ ہونے پر بھی ہماری شعوری اور لاشعوری دنیا کی بنیاد ہیں۔ ثمینہ نذیر کا فن جز کو کل اور کل کو جز کے تناظر میں ڈھال کر قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ذاتی اور سیاسی نظریات میں تفریق کرنے سے گریز کرے۔ چنانچہ ان کے افسانے ’’دیوارِ گریہ‘‘ میں ہند و پاک کی سرحد سیاسی کشیدگی کی علامت تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی پدرشاہی نظام سے رہائی کا ایک غیرمتوقع وسیلہ بھی بن جاتی ہے۔ ثمینہ نذیر ہمارے خطہ کے متعدد لہجوں، زبانوں، رسومات و عادات، المیوں اور مسرّتوں کو اس باریکی اور خورد بینی سے صفحات پر نقل کرتی ہیں کہ قارئین اپنے پس منظر کی ایک بالکل بدلی ہوئی شکل سے روبہ رو ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف ثمینہ نذیر جہاں ہمارے مشترکہ معاشرے کی نمایاں مورّخ ہیں اور کسی ماہرِ بشریات کی تن دہی سے ہمارے خطے کی پیچیدہ زندگیوں کو قلم بند کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف وہ اپنے اس لامحدود مطالعے کو قاری تک عام فہم اور شعور کو تہ و بالا کر دینے والے انداز میں پہنچاتی ہیں۔ بےشک ثمینہ نذیر کا یہ جدید افسانوی مجموعہ عصمت چغتائی، واجدہ تبسّم، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور اور تمام ان مصنّفین کی ادبی میراث اور برہنہ گوئی کا علمبردار ہے جنھوں نے ہمارے خطے کو سال ہا سال جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
(جیدیپ پانڈے)
