ADAMKHOR NIZAM KA NAUHA آدم خور نظام کا نوحہ
PKR: 999/- 599/-
Author: HASSAN NISAR
Pages: 368
ISBN: 978-969-662-444-8
Categories: SHORT STORIES COLUMNS ESSAYS
Publisher: BOOK CORNER
حسن نثار کو میں نے 1990ء کی دہائی میں پڑھنا شروع کیا جب انھوں نے ’’خبریں‘‘ میں کالم شروع کیا اور پھر پڑھتا ہی چلا گیا اور آج تک پڑھ رہا ہوں بلکہ اب تو سنتا ہوں اور دیکھتا بھی۔ ان کی تحریروں میں موجود نئے باغی نے مجھے متاثر کیا جو سب کے خلاف اکیلا تلوار تھام کر کھڑا ہوگیا تھا۔ حسن نثار نے جس طرح ہمارے معاشرے کی تاریخی، سماجی اور کلچرل منافقتوں کا بہادری سے پوسٹ مارٹم کیا ہے وہ اپنی جگہ ایسا کام ہے جس کی مثال جدید اُردو صحافت اور کالم نگاری میں ملنا مشکل ہے۔ افسانہ نگاری میں جس طرح منٹو نے پورے معاشرے کو ننگا کیا وہی کام جدید اُردو کالم نگاری میں حسن نثار نے کیا ہے۔ حسن نثار نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی۔ اگر انھوں نے کسی کے ساتھ رعایت کی کوشش بھی کی تو ان کے قلم نے ساتھ نہیں دیا اور وہی لکھا جو سچ تھا۔ وہ ہرگز نہیں گھبرائے کہ آپ یا میں ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ہم کیا رائے رکھتے ہیں۔ انھوں نے وہی لکھا اور بولا جو اُن کے خیال میں لکھا یا بولا جانا چاہیے تھا۔ آپ بے شک اعتراض کرتے رہیں انھیں کبھی پرواہ نہیں رہی۔ حسن نثار نے جس طرح پاکستانی تاریخ کو نئے سرے سے لکھا وہ ایک کمال ہے۔ پاکستانی معاشرے میں سچ لکھنا اور دھڑلے سے لکھنا کبھی آسان نہ تھا لیکن حسن نثار کو پڑھ اور سن کر لگتا ہے اتنا مشکل بھی نہ تھا۔ وہ ہرگز نہیں گھبرائے کہ ان کی تحریروں یا بولنے سے برسوں کی محنت سے مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں تراشے قدیم بُت ٹوٹ رہے تھے یا ہمارے ہیرو زیرو ہو رہے ہیں۔ لٹیروں کو ہیرو نہیں لکھا، لٹیرا ہی لکھا۔ کئی لڑائیاں لڑیں اور اب تک لڑ رہے ہیں لیکن میدان چھوڑ کر بھاگے نہیں۔ کئی تنازعات میں گھرے لیکن کھڑے رہے۔ اس ڈر سے کمپرومائز نہیں کیا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ خبط عظمت میں مبتلا ماضی پرست قوم اور معاشرے کو اس کی اوقات یاد دلانے میں بھی کمی نہ چھوڑی کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ نہ حملہ آوروں کو تاج پہنائے نہ وہ کسی سے مرعوب ہوئے۔ ہاں جہاں جس کا کریڈٹ بنتا تھا اسے دینے میں بھی نہ گھبرائے۔ کون سا موضوع ہے جس پر وہ لکھیں اور کمال نہ کریں۔ فلم ہو،آرٹ ہو، تاریخ، مذہب، سیاست یا ہمسایہ ملکوں سے تعلقات یا عالمی سیاست اور سب سے بڑھ کر ناسٹیلجیا.... ماضی سے رومانس کو وہ ایک اور لیول تک لے گئے۔ جب وہ ہمیں اپنے شاندار ماضی میں لے کر جاتے ہیں تو آپ کا دل چاہتا ہے وہ اس سے کبھی نہ نکلیں اور آپ کے لیے شاہکار کہانیاں لکھتے رہیں۔ اپنے ماضی کی کہانیاں سناتے وقت وہ نہ صرف خود افسردہ ہوتے ہیں بلکہ آپ کو بھی اُداس کردیتے ہیں۔شہرت کی بلندی پر پہنچ کر بھی انھوں نے اپنا ماضی کبھی نہ چھپایا۔ جو زندگی میں محنت اور مشقت کی اسے اپنی کمزوری بنانے کی بجائے اپنی طاقت بنایا۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنھیں غصہ یا attitude اچھا لگتا ہو یا ان پر سجتا ہو۔ حسن نثار پر غصیلا یا جارحانہ انداز سُوٹ کرتا ہے۔ حسن نثار کو برسوں سے پڑھتے پڑھتے ایک دن مجھے اچانک احساس ہوا وہ پاکستانی میڈیا کے اس طرح کے ’’اینگری ینگ مین‘‘ ہیں جیسے کبھی امتیابھ بچن بھارتی فلموں کا اینگری ینگ مین تھا جس نے بھارتی سینما کو نئی بلندی عطا کی۔ حسن نثار بھی پاکستانی میڈیا کا وہ اینگری ینگ مین ہے جو نہ کسی سے ڈرا، نہ جھکا نہ ہی مرعوب ہوا۔ آپ حسن نثار کو پسند کریں یا نہ کریں، اسے اچھا سمجھیں یا بُرا لیکن یہ طے ہے آپ حسن نثار کو نظر انداز نہیں کرسکتے جس نے ہمیشہ طوفانی ہوائوں کے مخالف کھڑے ہونے کو ترجیح دی اور دریا کی تیز و تند لہروں کے مخالف تیرنے کو ترجیح دی۔ وہ ایک ایسا لیڈ فلمی کردار ہے جو برسوں سے ہٹ فلمیں دے رہا ہے۔ اس کے ٹی وی شوز کی ریٹنگز ہے۔ اسے دیکھا جاتا ہے۔ سنا جاتا ہے۔ اس کی بڑی فین فالونگ ہے۔ آج بھی ہر بڑا ٹی وی چینل اسے اپنی سکرین پر دکھانے اور منہ مانگے پیسے دینے کے لیے تیار بلکہ بے چین ہے۔ آج برسوں بعد بھی میرے جیسے قارئین اس کی تحریروں کا انتظار کرتے ہیں۔
رؤف کلاسرا