MOR PANKHI مور پنکھی




PKR: 1,200/- 840/-
Author: JAVED SIDDIQUI
Binding: hardback
Pages: 246
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-601-5
Categories: SHORT STORIES
Publisher: BOOK CORNER
جاوید صدیقی کی کتنی ہی تحریریں مجھے پڑھنے کو ملیں۔ ’’میرے محترم‘‘ کے عنوان سے شخصی خاکوں کا ایک مجموعہ بہت پہلے مجھے بھیجا گیا تھا۔ اب ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’مور پنکھی‘‘ میرے سامنے ہے۔ بہت اچھی کہانیاں اور کمال کے کردار ہیں۔ ’’چھوٹا سیّد پورہ‘‘ نام کا ایک گاؤں ہے جس میں زیادہ تر شیعہ اور سُنّی مسلمان رہتے تھے۔ بعض دوسرے عقیدوں اور مسلکوں کے لوگ بھی تھے۔ صدیقی صاحب کی یہ تحریر پڑھ کر مجھے اپنا لڑکپن یاد آیا کہ مختلف عقیدوں کے لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے لیے یک جہتی اور قبولیت کا ماحول تھا۔ جاوید صاحب کے افسانوں میں کردار جاندار ہونے کے ساتھ ماحول کی بہترین عکّاسی بھی کرتے ہیں جو قاری کو متوجّہ کرتی ہے۔ ان کے یہ افسانے اُردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہیں۔ کہانی کہنے کا فن مسحور کن ہے، خوشگوار ہے۔ ان کی جو بھی کتابیں پڑھنے کو ملیں، میں نے دلچسپی سے پڑھیں۔ دعاگو ہوں کہ یہ ادب میں ایسے نفیس اضافے کرتے رہیں۔
(اسد محمد خاں)
جاوید صدیقی کون؟
معروف سکرین رائٹر، ڈراما نگار، مکالمہ نویس، خاکہ نگار اور کہانی کار جاوید صدیقی 13 جنوری 1942ء کو رام پور ہندوستان میں پیدا ہوئے اور نوعمری تک وہیں رہے۔ علی برادران (مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی) سے ان کے آبا کا بہت قریبی تعلق تھا جن کے بغیر برّصغیر کی سیاست اور آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ جاوید صدیقی کے پردادا حافظ احمد علی خاں شوقؔ اسی خاندان سے تھے۔ وہی احمد علی خاں شوقؔ جو نواب رام پورکے وزیر اور رضا لائبریری کے پہلے لائبریرین تھے۔ جاوید صدیقی کے والد شجاعت علی اسی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے برسوں کام کرتے رہے، بعد میں سیاسی میدان میں نام کمایا اور ہر سچّے محبِ وطن کی طرح جیل کی صعوبتیں بھی اٹھائیں۔ جاوید صدیقی سترہ برس کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا اور انھیں بمبئی آنا پڑا۔ یہاں چچا مولانا زاہد شوکت علی کی رہنمائی میں اپنے خاندانی اخبار ’خلافت‘ میں بطور صحافی اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ’انقلاب‘ اور ’ہندوستان‘ جیسے اخبارات میں کام کرنا شروع کیا اور پھر اپنا اخبار ’اُردو رپورٹر‘ نکالا جس سے 1975 ء تک وابستہ رہے۔
ایمرجنسی کے زمانے میں جب صحافت کا دروازہ بند ہوا تو فلمی دنیا کے دروازے کُھل گئے۔ 1977ء میں ستیاجیت رے کی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ سے فلم انڈسٹری میں اپنے اہم سفر کا آغاز کیا اور بھارت کے کچھ مشہور فلم سازوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں مظفر علی کی ’امراؤ جان‘، دیپک شیوداسانی کی ’باغی‘، منی رتنم کی ’انجلی‘، یش چوپڑا کی ’یہ دل لگی‘، دھرمیش درشن کی ’راجہ ہندوستانی‘، مہیش بھٹ کی ’چاہت‘، شیام بینیگل کی ’زبیدہ‘، سبھاش گھئی کی ’تال‘، خالد محمد کی ’فضا‘، راکیش روشن کی ’کوئی مل گیا‘ جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔
جاوید صدیقی کو اپنی نسل کے تمام بڑے ستاروں اور اداکاروں کے لیے لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ شاہ رخ خان آغاز ہی سے انھیں اپنے لیے بخت آور مانتے آئے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ ’بازی گر‘، ’ڈر‘، ’پردیس‘ اور ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ جیسی کئی ابتدائی ہِٹ فلموں میں کام کر چکے ہیں۔
جاوید صدیقی نے تھیٹر میں بھی نام کمایا۔ ’تمھاری امرتا‘، ’سالگرہ‘، ’ہمیشہ‘، ’بیگم جان‘، ’ہمسفر‘، ’اندھے چوہے‘، ’کچّے لمحے‘، ’آپ کی سونیا‘ اور ’ایک سفرنامہ‘ جیسے مقبول سٹیج ڈرامے لکھے اور ڈائریکٹ کیے۔
فلم اور تھیٹر کے علاوہ جاوید صدیقی نے اُردو ادب کو بھی ثروت مند کیا ہے۔ خاکے لکھے، کہانیاں بھی اور خاکہ نُما بھی۔ ادب نوازوں نے ان خاکوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اتنی ہمت بڑھائی کہ ایک کتاب شائع ہو گئی جس کا نام ’روشن دان‘ رکھا۔ پذیرائی اور ہمت افزائی کا سلسلہ بڑھا تو خاکوں کے دو اور مجموعے ’لنگرخانہ‘ اور ’اُجالے‘ بھی منظرِ عام پر آ گئے۔ اب اِن تینوں کتابوں کو یکجا کر کے ’میرے محترم‘ کا رُوپ دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس مجموعے کی اشاعت کا بیڑہ ’بُک کارنر‘ نے اٹھایا اور بڑے اہتمام سے چھاپا ہے۔ جاوید صدیقی نے کہانیاں لکھیں تو پہلا مجموعہ ’مُٹھی بھر کہانیاں‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔ اس کتاب کا عنوان اور سرورق کی مصوری دونوں گلزار صاحب کی عطا ہیں۔ ’مور پنکھی‘ ان کا دوسرا اور تازہ ترین مجموعہ ہے۔
جاوید صدیقی ’بازی گر‘، ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ اور ’راجہ ہندوستانی‘ جیسی فلموں میں اپنے ڈائیلاگز اور سکرین پلے کے لیے دو ’فلم فیئر ایوارڈز‘ اور ’سٹار سکرین ایوارڈز‘ اپنے نام کروا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ’امراؤ جان‘ کے لیے ’بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ‘ بھی حاصل کیا۔ 2001ء میں ریڈیو اور ٹی وی سے وابستگی پر راپا ٹرسٹ کی جانب سے ’آل انڈیا ایوارڈ‘ ملا۔ 2006ء میں انھیں ہندی سنیما کے لیے خدمات پر ’سہارا اَودھ سمّان‘ سے نوازا گیا۔ 2007ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے اُردو ڈرامے کا ’ہم سب غالب انعام‘ دیا گیا۔ اترپردیش اکادمی لکھنؤ نے کتاب ’روشن دان‘ کو 2011ء کی بہترین کتاب پر سند توصیف عطا کی۔ 2016ء میں اُردو قبیلہ بھیونڈی کی جانب سے کتاب ’لنگرخانہ‘ کو شان دار پذیرائی ملی۔