KACHAY GHARON KI KAHANIYAN کچے گھروں کی کہانیاں




KACHAY GHARON KI KAHANIYAN کچے گھروں کی کہانیاں
PKR: 1,200/- 720/-
Author: ALI AKBAR NATIQ
Pages: 232
ISBN: 978-969-662-592-6
Categories: SHORT STORIES MEMOIRS
Publisher: BOOK CORNER
اُس وقت میری عمر پانچ چھ برس ہو گی۔ ہمارے گھر کے سامنے سے کچی سڑک گزرتی تھی۔ سڑک کے ساتھ پانی کا نالہ چلتا تھا اور کنارے پر دونوں جانب ٹاہلیوں کے بلند پیڑ تھے۔ ساتھ ہی یونین کونسل کا دفتر تھا۔ اُس میں بھی بےشمار شیشم اور نیم کے درخت تھے۔ سڑک پر پھیری لگانے والے اکثر آواز لگاتے ہوئے گزرتے تھے۔ کھوئے کی قفلی لے لو، گُڑ اور برف کا ٹھنڈا گولا لے لو۔ لال و لال متیرہ لے لو، خاص کر جب قفلی اور گولے کی آواز آتی تو میرے کان کھڑے ہو جاتے، بھاگ کر سڑک پر آ جاتا۔ پیسے اُن دِنوں نہیں ہوتے تھے۔ کبھی کبھار گندم یا آٹا گولے والے کو دے کر برف کا گولا بنوا لیتا۔ سُڑکے لگا لگا کر چوستا اور شیشم کے درختوں کی چھاؤں تلے پانی کے نالے میں پاؤں ڈال کر بیٹھ جاتا۔ جب گولا ختم ہو جاتا تو گھر لوٹتا۔ اگر یہ بھی نہ ہوتا تو فقط قفلی یا گولے والے کو دُور جاتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوتا گھر میں نہ گھستا تھا۔ یونین کونسل تب مصطفیٰ زیدی نے بنوائی تھی اور اُس میں ایک لائبریری بھی قائم کی تھی۔ اُس وقت وہ ساہیوال کے ڈی سی ہوتے تھے۔ اُس لائبریری میں بچوں اور بڑوں کے لیے بہت سی کتابیں تھیں۔ اکثر اوقات جب مجھے گولا نہ ملتا تو بجائے گھر میں داخل ہونے کے یونین کونسل کی لائبریری میں گُھس جاتا۔ وہاں ابنِ صفی کی عمران سیریز، ٹارزن کی جنگلی مہمیں اور کمانڈوز کی کہانیاں مفت میں مل جاتی تھیں جنھیں پڑھ کر واپس کرنا ہوتا تھا۔ مَیں وہ گھر لے آتا اور اُس کے عوض چوکیدار کو دوپہر کے وقت گھر سے عمدہ دودھ پتی بنوا کر لا پلاتا۔ یہاں سے مَیں نے وہ سارا ادب پڑھا جو بچوں کو پڑھنا چاہیے تھا۔ اے کاش، آج کے بچے پیدا ہوتے ہی جوان نہ ہوتے اور نیٹ کی بجائے کم از کم بیس سال کی عمر تک کتاب ہی سے واسطہ رکھتے تو یقین مانیے وہ آہستہ آہستہ بڑے ہوتے اور یہ بہت فطری ہوتا۔ کیونکہ جلد بڑا ہونے والا جلد رسوا ہوتا ہے۔
(علی اکبر ناطق)
RATE THIS BOOK
RELATED BOOKS




