TEESRI DASTAK تیسری دستک
PKR: 1,500/- 1,050/-
Author: IRFAN MAJEED RAJA
Pages: 152
ISBN: 978-969-662-548-3
Categories: SHORT STORIES
Publisher: BOOK CORNER
تارکینِ وطن کو دو اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے۔ اوّل وہ جو گئے اور پلٹ کر نہ دیکھا۔ پلٹ کر نہ دیکھنے سے مراد یہ نہیں کہ آئے کبھی نہیں۔ مراد یہ ہے کہ جذباتی تعلق توڑ لیا۔ آئندہ نسل کا رابطہ جڑوں سے ہے یا نہیں اِس کی اُنھیں کوئی فکر نہیں۔ لسانی اور ثقافتی زیاں ہو رہا ہے تو اُنھیں کچھ احساس نہیں۔ یہ قسم وہ ہے جو ضم ہونے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ دوسری قسم سخت جان ہے اور مدافعت کرنے والی۔ ایسے تارکینِ وطن ثقافت کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی زبان اور ادب کی بھی، اور مٹی سے رشتہ اُستوار رکھنے کی بھی جدوجہد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عرفان مجید راجہ کا تعلق اِسی دوسری کیٹیگری سے ہے۔ ہسپانیہ میں جِن تارکین وطن نے مِنی پاکستان آباد کر رکھا ہے اُن میں عرفان مجید کا نام سرِ فہرست ہے۔ اس کی زیرِ نظر تحریریںاس کے سوزِ دِل کی گواہ ہیں اور اِس امر پہ بھی شاہد ہیں کہ وہ مسلسل احساسِ زیاں سے دوچار ہے۔ یوں لگتا ہے وہ کشتی کھے رہا ہے اور مخالف موجوں سے برسرِ پیکار ہے۔ (محمد اظہار الحق)
آج کے اُردو فکشن کی اگر بات کی جائے تو زیادہ تر کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو پڑھنے کے کچھ دیر بعد ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو چند دن ذہن میں رہتی ہیں پھر محو ہو جاتی ہیں اور بہت کم کہانیاں ایسی پڑھنے کو ملتی ہیں جو دل و دماغ پر ایسا اثر کریں کہ مدّتوں فراموش نہ کی جا سکیں۔ دراصل موخرالذکر کہانیوں میں وہ فسوں ہوتا ہے جو قاری پر کبھی سرشاری کی کیفیت طاری کر دیتا ہے اور کبھی اس پر اک جہانِ معارف کھول دیتا ہے۔ اس کی نگاہ کو وسعت بخشتا ہے اور اس کی فکر کو مہمیز بھی کرتا ہے۔ یہ فسوں کہانی کی ٹریٹ منٹ میں ہو سکتا ہے، بیانیہ میں، منظر نگاری اور کرداروں کے احوال یا مکالموں وغیرہ میں بھی۔ درحقیقت یہی فسوں ہی ایک عام کہانی کو افسانہ بناتا ہے۔ ایسی کہانی لکھنے والے کو عام کہانی کار کے درجے سے اُٹھا کر افسانہ نگار کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ ڈاکٹر عرفان مجید راجہ بھی ایسے ہی فسوں گر ہیں جو اپنے اِردگِرد پھیلی روزمرّہ کی عام کہانی میں ایسا سحر پُھونکتے ہیں کہ وہ اعلیٰ پائے کا افسانہ بن جاتی ہے۔ (وحید قمر)
عرفان مجید راجہ کی کہانیوں اور مضامین کا امتزاج ایک بےقرار اور مضطرب رُوح کے سیمابی عکس ہیں۔ ایک ایسا انسان جس کی فکر تکون کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ تکون کا ایک سِرا پردیس میں گُزرتے لمحات سے ضو پاتا ہے تو دوسرا سِرا وطنِ عزیز میں گُزرے بچپن اور یادوں میں اَٹکا پڑا ہے۔ آپ جب دو برّاعظموں میں بستے پاکستانیوں کو ثقافتی تفاوت نامے میں تلملاتے ہوئے یا تذبذب کا شکار ہوتے دیکھتے ہیں، تب تب اُن کا قلم اُٹھتا ہے اور سو پردوں میں چھپی منافقت کو چاک کرتا چلا جاتا ہے۔ آپ تنقید، طعن و تشنیع، اور مزاح کی نشتر زنی بھی کرتے ہیں۔ (جی حسین)
’’تیسری دستک‘‘ کی ان تحریروں کو آپ سرسری طور پر تو بالکل بھی نہیں پڑھ سکتے۔ آپ کو رُک رُک کے پڑھنا پڑے گا اور پڑھ پڑھ کے رُکنا پڑے گا۔ جب تک آپ لفظوں کو پڑھ کر ان پہ غور و فکر نہیں کریں گے ان تحریروں کی تفہیم آپ کے دل و دماغ کی گرفت میں نہیں آئے گی۔ لفظ اپنا مافی الضمیر آپ کے سامنے عیاں کر نے گریزاں رہیں گے۔ لفظوں میں گہرائی ہے اور گہرائی میں غوطہ زن ہوئے بغیر گوہر مراد ہاتھ آنا مشکل ہے۔ جہاں راجہ صاحب کے ہاں شوکت تھانوی کی سی شوخی ہے تو وہاں یوسفی کی طرح بات کو تہ در تہ چھپا کر دکھانے اور دکھا کر چھپانے کی کاریگری بھی ہے۔ حاضر دماغی کے بغیر آپ اس کتاب کو نہیں پڑھ سکتے۔ مٹّی کی بھینی بھینی خوشبو ہر صفحے پہ بکھری پڑی ہے۔ سر زمین ہسپانیہ پہ بھی مٹی کا یہ بیٹا اپنے دیس کی زمین سے جُڑا ہوا ہے۔ افسانہ نُما خاکے اور خاکہ نُما افسانے کسی کبڈی کے منہ زور جاپھی کی طرح آپ کی روح کو جکڑ لیتے ہیں، آپ کے اِردگِرد اپنا شکنجہ کس لیتے ہیں اور پھر آپ کہیں کے نہیں رہتے، ڈھے جاتے ہیں، گُم ہو جاتے ہیں ان خوب صورت تحریروں کے جادو میں۔ (ڈاکٹر احمد حسن رانجھا)