SAB RANG KEHANIYAN (VOL: 7) سب رنگ کہانیاں (والیم 7)
PKR: 1,995/- 1,397/-
Author: SHAKEEL ADIL ZADAH KA NIGARKHANA
Tag: HASAN RAZA GONDAL
Pages: 368
ISBN: 978-969-662-531-5
Categories: WORLD FICTION IN URDU SHORT STORIES TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
’’سب رنگ کہانياں‘‘ تراجم کے مشہورِ عالم سلسلے کی کڑی ہے جو فکشن کے دل داده قارئين کے دل و دماغ پر ايک انوکھا نقش جماچکی ہے اور جس کی کاميابی کا سہرا ہمارے دوست شکيل عادل زاده کے سر سجتا ہے۔ اِس نے صرف فکشن کے قاری ہی کو اپنا گرويده نہيں بنايا ہے بلکہ ہمارے افسانہ نگاروں کو بھی بيرون ملکی افسانوں کی وسعت، گہرائی اور تازگی کی فکر انگيزی سے روشناس کيا ہے اور ايسا لگتا ہے جيسے دنيا سمٹ اور سُکڑ کر ايک ايسے شہر ميں تبديل ہو چکی ہے، سارے کے سارے ممالک جس کے اندر محلّوں کی شکل ميں آباد ہو گئے ہيں۔ ادب اپنے ملک کی تہذيب و تمدن کا آئينہ دار ہوتا ہے جبکہ يہاں ساری کی ساری عالمی تہذيبيں بغل گير بلکہ گتھم گتھا ہوگئی ہيں۔ ملکوں کی ساری دورياں مٹ گئی ہيں اور افسانہ نگاری کا فن ايک نئے پن سے لُطف اندوز ہورہا ہے اور جس نے افسانے کے ساتھ ساتھ ديگر فنونِ لطيفہ کو بھی اس طرح متاثر کيا ہے کہ ايک فرحت آميز کشادگی کا احساس چاروں طرف پھيل گيا ہے۔ تراجم اس قدر سليس اور شگفتہ ہيں کہ تراجم لگتے ہی نہيں۔ شکيل عادل زاده بجاطور پر اس تاريخی اور انقلاب آفريں کارنامے پر مبارک باد کے مستحق ہيں اور حسن رضا گوندل کے لیے بھی نعرۂ تحسین کہ وہ اس خزینے کو کتابی صورت میں محفوظ کر رہے ہیں۔
ظفر اقبال
قیامِ پاکستان کے پہلے بیس برس تک عالمی ادب کے اُردو تراجم کا کام ہوا تو مگر کم بہت ہی کم۔ البتہ ستر کی دہائی کے آغاز میں سب رنگ کے ذریعے ہر ماہ غیر ملکی افسانوں کے تراجم کے ایک شاندار سلسلے کا آغاز ہوا یعنی ...^ میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا۔ اس پس منظر کی موجودگی میں گزشتہ نصف صدی کے دوران میں لکھے گئے اُردو افسانے کی صورت گری میں ’سب رنگ‘ اور اس جیسے چند ایک اور جرائد کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’سب رنگ‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اُردو پڑھنے والوں کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ اُردو لکھنے والوں کی غیر ملکی لٹریچر تک رسائی کا سامان بھی بہم کرتا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُردو جرائد کے مدیران میں سے کسی کو اس طرح کا اعزاز کم ہی ملا ہو گا۔ شکیل عادل زادہ اس بنا پر یقیناً خوش قسمت ہیں، لیکن ان کی یہ خوش قسمتی بھی کسی اعتبار سے کم نہیں کہ انھیں سب رنگ کے عشاق میں حسن رضا گوندل کی شکل میں ایک دیوانے کی ہمرہی میسّر آئی ہے۔ حسن رضا گوندل، جس نے ادب و آگہی کے اس چراغ کو ماضی کی گپھاؤں میں گُم ہونے سے بچانے کا بیڑا اٹھایا، جسے شکیل عادل زادہ نے برسوں اپنے خونِ جگر سے فروزاں کیے رکھا۔ یہ وہ کام تھا جسے سود و زیاں سے ماورا کوئی دیوانہ ہی انجام دے سکتا تھا۔ صلہ و ستائش سے بے نیاز حسن رضا کی طرح کا کوئی شخص، جس کی دیوانگی میں ہوشیاری اور سرمستی کے وہ تمام اجزا شامل ہوں جو ایسے جاں گسل کاموں کے آغاز کا حوصلہ اور تکمیل کی لگن کا سبب بنتے ہیں۔
شعیب بن عزیز
میں ہمیشہ یہ بات کرتی رہی ہوں کہ بچّہ جب چھوٹا ہو تو والدین اسے رات کو کہانی سنائیں۔ جب پڑھنے کے قابل ہو تو کہانی کی کتاب ہاتھ میں تھما دیں۔ پھر کتاب اس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹے گی، نہ یہ کہانیاں پڑھنے کی عادت ختم ہو گی۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے، سفر میں وقت گزارنے کے لیے مجھے کہانی کا ساتھ چاہیے۔ سو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُردو اور انگریزی میں جتنی کہانیاں میسّر آئیں، پڑھ ڈالیں۔ دنیا کی بہترین کہانیوں کے انگریزی تراجم کی پینگوئن سیریز تلاش کرتی پھرتی تھی۔ اس مشقّت سے مجھے سب رنگ نے بچایا، جب اس میں دنیا کی بہترین کہانیوں کا انتخاب شائع ہونے لگا۔
سب رنگ کا انتظار اس محبوب کی طرح کیا جاتا جو تحائف سے لدا پھندا آتا۔ اس میں چھپنے والی ہر کہانی خواہ ہماری اپنی زبان کی ہو یا انگریزی سے ترجمہ شدہ، نادر و نایاب ہوتی۔ سب رنگ میں تعطّل آتا تو اس کی کمی محسوس ہوتی، پھر یہ ڈائجسٹ جس نے ڈائجسٹوں کا امیج بھی بلند کیا تھا اور اعلیٰ ادب کو عام لوگوں کے گھروں میں بھی داخل کر دیا تھا، بند ہو گیا۔ ہماری نسل تو اس سے مانوس رہی، بعد کی نسل اور اس میں فاصلہ اجنبیت کی سرحد کو نہ چُھو لے، اس سے پہلے حسن رضا گوندل نے بڑا کام کر ڈالا۔ سب رنگ کے تمام شمارے نہ صرف ڈیجیٹلائز کر کے محفوظ کیے، بلکہ کہانیوں کی کتابی شکل میں اشاعت کے لیے ان کے انتخاب اور ترتیب و تالیف جیسی کٹھن مشق بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ پھر یہ بک کارنر جیسے معیاری اشاعتی ادارے سے پے در پے چھے جلدوں میں شائع ہوئیں۔ شکیل عادل زادہ کی نفاست طبع کا ساتھ گگن اور امر شاہد جیسے پبلشر ہی دے سکتے تھے۔ حسن رضا گوندل نے انگریزی کہانیوں کے تراجم کی سات جلدوں کا انتخاب مکمل کر لیا ہے مگر پائے تمنّا ابھی دشتِ امکاں میں ہے۔ ان کا ارادہ دیگر کہانیوں کے انتخاب کے لیے مستحکم نظر آرہا ہے۔ ان کی پُر خلوص محنت کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ ہمیں سب رنگ میں شائع ہونے والی دیگر زبانوں کی کہانیوں کے ترجمے اور اُردو کہانیاں بھی کتابی شکل میں ملتی رہیں گی۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن