SHAH JAMAL KA MUJAWIR شاہ جمال کا مجاور
PKR: 800/- 560/-
Author: RAUF KLASRA
Pages: 359
ISBN: 978-969-662-345-8
Categories: SHORT STORIES COLUMNS ESSAYS
Publisher: BOOK CORNER
بچپن سے ہی ہم سب شاہ جمال دربار اور وہاں موجود ایک مجاور کو دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے۔ اس بستی کے قریب بزرگوں کے دو ہی دربار تھے۔ ایک شاہ جمال اور دوسرا مالدے شہید کا دربار۔ دونوں کی الگ الگ کہانیاں، الگ الگ کرامات کے قصے۔ ان بزرگوں کا سایہ دریائے سندھ اور تھل صحرا کے درمیان واقع اس چھوٹے سے گائوں کے مکینوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ اس گائوں کے باسیوں کی خوشی اور غم ان بزرگوں کے دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ان دونوں دربار کے ساتھ کئی کہانیاں جڑی ہوئی تھیں ۔ کئی دھاگے، کئی اُمیدیں ، منتیں ترلے، ناکام عاشقوں کی محبتوں کے سلسلے بندھے ہوئے تھے ۔ شاہ جمال دربار کے اس مجاور کی یہ کہانی سچّی ہے۔ اس کہانی کا میں خود عینی شاہد ہوں ۔ اس مجاور کے غیرمعمولی کردار پر پورا ناول لکھا جاسکتا تھا۔ یہ کہانی ہمیشہ سے میرے ذہن میں تھی ۔ اب برسوں بعد جب میں نے بزرگ شاہ جمال کے اس مجاور پر لکھنے کا فیصلہ کیا تو میرا خیال تھا وہ بہت بوڑھا یا پھر شاید وفات پا چکا ہوگا۔ لیکن پتہ چلا وہ بوڑھا مجاور ابھی بھی اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ تھا ۔ میں حیرت اور خوشی سے اُچھل پڑا ۔ میرا اس مجاور سے برسوں بعد رابطہ ہوا اور میں نے اس کی زبانی پوری کہانی سنی ۔ ایک ایسا کردار جسے بزرگ شاہ جمال نے اس کے خواب میں آ کر خود اپنا مجاور مقرر کیا تھا ۔ برسوں تک سب کچھ ٹھیک چلتا رہا لیکن پھر ایک دن نئی ٹریجڈی نے جنم لیا، جب اس گائوں میں مجاور کو ہٹا کر اس کی جگہ نیا مجاور لانے کی سازش تیار کی گئی ۔گائوں کے چند کرداروں کو لگا مجاور بہت طاقتور ہوگیا تھا۔ اس کی طاقت کو توڑنا ضروری ہوگیا تھا۔ دربار کی کمائی پر سب کی آنکھیں لگ گئی تھیں ۔ مجاور کو بھی محسوس ہوا، بزرگ شاہ جمال اور اس کے درمیان برسوں سے قائم تعلق کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ دونوں کا بہت کچھ دائو پر لگ چکا تھا۔ جہاں گائوں کی تاریک گلیوں میں اس مجاور کے اُبھرتے اثر و رُسوخ کے خلاف ایک خاموش سازش جنم لے رہی تھی وہیں شاہ جمال اور مجاور کے درمیان پیدا ہونے والی کشمکش بھی ایک نیا موڑ لے رہی تھی ۔ ایک تنہا، مایوس اور سازشوں میں گھرا مجاور اپنے بزرگ شاہ جمال سے بھی شاکی ہوچلا تھا۔ ایک دل برداشتہ مجاور کو ان سازشوں کے درمیان یوں لگا جب اسے شاہ جمال کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اسے اکیلا چھوڑ گیا تھا۔
دریائے سندھ اور تھل صحرا کے درمیان واقع ایک دُور دراز گائوں میں برسوں پہلے جنم لینے والی اس غیر معمولی کہانی کا مرکزی کردار ایک مجاور ہے جس کے بزرگ شاہ جمال کے ساتھ روحانی تعلق اور محبّت کے امتحان کی یہ غیرمعمولی داستان آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی۔
رؤف کلاسرا
Reviews
صدام رونجھا
میری پسندیدہ
Nasir MAJEED (Multan)
Inayat Hur (Quetta)
گمنام گاوں کا آخری مزار
کے بعد صحافی محترم رئوف کلاسرا صاحب کی ایک اور کتاب شاہ جمال کا مجاور صحرامیں پھول جیسا ہوگا ہم جیسے صحافت کے پیاسوں کے لئے ایک بہترین میٹھے پانی کا چشمہ ثابت ہوگا ۔۔۔۔بک کارنر کے اس عظیم کاوش کو سلام پیش کرتے ہیں
Muhammad Hashir (Chashma)
شاہ جمال کا مجاور۔۔۔۔۔ رؤف کلاسرا
۔
۔
آپ نے @raufklasra دی جرنلسٹ کو پڑھ بھی رکھا ہو گا اور اکثر انہیں اپنی ٹیلی ویژن سکرین پہ دیکھا بھی ہو گا لیکن شاید کم ہی لوگوں نے ہی رؤف کلاسرا دی رائٹر کو پڑھا ہو
۔
۔
اس سے پہلے ان کی ایک کتاب گمنام گاؤں کا آخری مزار کے نام سے آئی ہے اور یہ کتا"شاہ جمال کا مجاور" اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے
۔
مختصر مضامین پہ مشتمل یہ کتاب لاجواب نثر کا نمونہ ہے ۔ عام لوگوں کی وہ کہانیاں جو ہمارے اردگرد ہو رہی ہوتی ہیں اس خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہیں کہ آپ سوچتے رہ جاتے ہیں
۔
یوں تو ہر ایک مضمون اور کہانی بہترین اور خوبصورت ہے لیکن
۔
📓بھارتی جنرل اور پاکستانی کپتان
📓دو ماؤں کی تلاش
📓ایک تھی ماں ایک تھا بادشاہ
📓it never ends
📓ماں اور ملتان
📓 ڈاکٹر سعید احمد باجوہ
📓veronica decides to die
📓ماضی کے مزار
📓شکار اور شکاری
📓ایک ملتانی دوست کا دکھ
📓47 Ronin
📓بلقیس بانو کی مھا بھارت
📓مسلمان ہونے کی کہانی
اور
📓لندن کا تاجر
۔
میری زاتی پسند ہیں۔ یہ کہانیاں کہی۔ آپ کو ٹاسٹلجیا کا شکار بنائیں گی تو کہیں گہرے دکھ کے ساتھ آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ بھی مجبور کر دیں گی
Mohsin ALi Khan
23 اپریل کو " کتابوں کا عالمی دن " منایا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد دُنیا بھر میں کتاب کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔
" تاریخی لحاظ سے اس دن کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی؛ 1616ء میں اسپین کے شمال مشرق میں واقع علاقہ کیٹولینیا میں ہر سال 23 اپریل کو دنیا جہاں کے مرد اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے تھے اور اس روایت میں دنیا بھر سے خصوصاً یورپ سے لاکھوں کی تعداد میں لڑکے لڑکیاں کیٹولینیا جاتے ہیں یہ سلسلہ دو دن جاری رہتا تھا، اس دوران جگہ جگہ میگوئیل ڈی سروانٹیز کی شہرہ آفاق تصنیف " ڈان کیخوٹے " کے حصے، شیکسپئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفین کی کتابوں سے اقتباس پڑھے جاتے تھے۔
پھر یہ رسم اسپین کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتی گئی اور آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی۔ اب کیٹولینیا میں ہر سال صرف گلابوں ہی کی نہیں کتابوں کی بھی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے اور اس کے بعد 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل کا فرانس میں اجلاس ہوا تو اس نے 23 اپریل کو ’ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ قرار دے دیا اور اب یہ دن کتابوں اور جملہ حقوق کی حفاظت کے عالمی دن کے طور پر دُنیا کے تقریباً ایک سو ملکوں میں منایا جانے لگا۔" (وکی پیڈیا)
انٹرنیٹ مووی ڈیٹا بیس (IMDB) فلموں،ڈراموں، ویڈیو گیم کی ایک جامع ڈیٹا بیس ہے۔ آپ نے کوئی فلم/ڈرامہ دیکھنا ہو تو آپ آئی ایم ڈی بی کی سرچ آپشن سے اس کو تلاش کر سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے فلم/ڈرامہ کی تفصیل کھل جاۓ گی جس میں اس فلم/ڈرامہ میں کام کرنے والے کرداروں، کریو، فلمی لوکیشن، ساؤنڈ/میوزک، اور ڈائریکٹر، پروڈیوسر کی بھی مکمل معلومات اور ان کے انفرادی کام کی تفصیل اور سب کی بائیوگرافی بھی موجود ہو گی۔ آپ اس کی ریٹنگ بھی دیکھ سکتے جس سے پتہ لگ جاۓ گا کہ یہ فلم/ڈرامہ کتنا مقبول یا غیر مقبول ہے۔ آپ خود بھی ریٹنگ دے سکتے ہیں جو کہ آپ کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی پر منحصر ہے۔
کہانی میں کتنے جُھول ہیں یا اس میں غیر متوقع کیا بات ہوئی وہ بھی آپ کو (Trivia, Goofs) کے سیکشن میں پتہ چل جاۓ گی۔ پلاٹ سمری سے آپ اس کا مختصر تعارف دیکھ سکتے ہیں اگر مزید تفصیل چاہیے تو آپ سائنوپسز والے خانے میں دیکھ سکتے۔ یہ بھی پتہ چل جاتا کہ یہ بچوں کے لیے مفید ہے یا نہیں۔ اگر اس میں ایسے الفاظ یا مناظر ہیں جو بچوں کے لیے نہیں درست تو اس کی بھی ساری تفصیل موجود کہ کون سے الفاظ استعمال ہوۓ اور کہاں کہاں ایسے مناظر ہیں اس کے لیے آپ کو پیرنٹ گائیڈ والے آپشن پر کلک کرنا پڑتا ہے۔ کس زبان میں ہے، دُھنیں کون سی ہیں، کس نے ترتیب دی ہیں، کب ریلیز ہوئی کہاں ہوئی، کتنے ایوارڈ جیتے یا اُن کے لیے نامزد ہوئی، اس سے جڑی ہوئی خبریں، غرض یہ کہ ہر قسم کی معلومات سموۓ ہوۓ ہے۔
ان سب کے ساتھ میرے لیے جو چیز بہت اہم ہوتی وہ اس فلم/ڈرامہ کا (Genere) " ژانرا " ہوتی ہے۔ میں کوئی بھی فلم/ڈرامہ دیکھنے سے پہلے اس کے ژانرا کو دیکھتا ہوں۔ جو کہ“ سائنس فکشن، محبت رومانس، ہارر، ایکشن و ایڈونچر، سسپنس، جاسوسی، کرائم، ویسٹرن، بائیوگرافی، تخیلاتی، تاریخی، جنگ " وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں اس فلم/ڈرامہ کو دیکھنے سے پہلے ایک آئیڈیا ہو جاتا ہے کہ اس میں موجود کہانی کیا رُخ اختیار کیے ہوۓ ہے۔
یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ آج کتابوں کے عالمی دن پر مجھ سے کوئی پوچھے کہ مجھے کوئی اچھی سی کتاب تجویز کریں تو بجاۓ اس کے اُلٹا میں اس سے سوال کروں کہ جناب آپ کی دلچسپی کس میں ہے؟ کیا آپ رومانٹیک ناول پڑھنا چاہتے، سائنسی پڑھنا چاہتے، پرانے قصے کہانیاں، افسانے، سچے واقعات، آپ بیتی وغیرہ پڑھنا چاہتے؟ تاکہ میں آپ کی بہترین کتاب آپ کے پسندیدہ موضوع پر بتا سکوں۔ اس سے بہتر ہے میں ایک کتاب تجویز کردوں جو اپنے اندر تمام ژانرا سموۓ ہوۓ ہے۔
اس کے لیے میں رؤف کلاسرا صاحب کی کتاب“ شاہ جمال کا مجاور“ تجویز کر دیتا ہوں۔
اس میں آپ کو ہر قسم کا ادبی و تخیلاتی ٹچ مل جاۓ گا۔ ہر کہانی آپ کو اپنی گرفت میں لے گی۔ آپ کے کبھی آنسو بے قابو ہوں گے، کبھی محبت میں گُم ہو جائیں گے، کبھی اُداسی گھیر لے گی، کبھی تاریخ کا کوئی سبق مل جاۓ گا جس کا تعلق حال سے بھی ہو گا اور مستقبل سے بھی، کبھی آپ کو " ماں " کی عظیم ہستی اپنی آغوش میں لے گی تو کبھی وفادا جانور آپ کے قدموں سے لپٹ جائیں گے، اگر آپ ان سے بچھڑے تو وہ بھی جان سے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کوئی کہانی پڑھتے ہوۓ آپ رک جائیں، آنکھیں بند کر لیں، اپنی زندگی کی کہانیاں بُننے لگ جائیں، آپ کو لگے کہ آپ اپنا ہی کوئی قصہ پڑھ رہے ہیں۔
اس کتاب میں موجود تمام کرداروں سے آپ محبت کر بیٹھیں گے، اس کی وجہ کہ آپ یا تو وہ کردار نبھا چکے ہیں اپنی زندگی میں یا پھر آنے والے وقت میں آپ اسی کردار کو نبھانے والے ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے یہ کتاب پیشین گوئی بھی ہے۔
اس سے پہلے“ گمنام گاؤں کا آخری مزار“ بھی عام آدمی کی خاص کہانیوں پر مشتمل کتاب بھی اپنی طرز کی ایک انوکھی کاوش تھی۔ شاہ جمال کا مجاور اسی سلسلے کا والیم ٹو ہی سمجھ لیں۔ اس میں پٹھانے خان اور بھٹو صاحب کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ جس کو پڑھ کے آپ کو پٹھانے خان سے محبت ہو جاۓ گی۔ یہی دلیل کافی ہے اس بات کے لیے کہ عام آدمی کی کہانی بادشاہ کی ہزار داستانوں سے بھی بلند ہوتی ہے لیکن پہلے کبھی کسی نے عام آدمی کی کہانی قرطاس پر اُتاری ہی نہیں۔ بادشاہ خواہ کھوپڑیوں کا مینار بھی بنا دے تب بھی اس کی رحم دلی پر جے ہو جے ہو کے نعرے لگاتی کہانیاں ہی لکھی جاتی رہیں ہیں۔
بُک کارنر جہلم کے گگن شاہد اور اَمر شاہد کا خصوصی شکریہ کہ اس کتاب کو پبلش کر کے، خوب صورت انسانوں سے اس کتاب میں ملاقات کروانے کا باعث بنے۔ عام آدمی کے قصے کہانیاں شائع کرنا ایک خاص آدمی کا کام ہوتا۔ آپ دونوں بھائی خاص ہیں، اپنے والد محترم شاہد صاحب کی طرح، جو عام آدمی کے لیے آسانی کتاب کی صورت میں کرتے تھے۔
Mudassar Saadat
گمنام گائوں کا مزار ایک شاہکار کتاب ہے لیکن شاہ جمال کا مجاور ایک تخلیق ہے۔۔۔
اپنے صحافی دوست کے بارے میں لکھا۔۔۔اور یہ لائن
" کہ ماں اپنے بچوں کو کیا کہانی سناتی ہوگی جب انکے والد نہیں آتے ہمیشہ کے لئے"
بخدا اس سے آگئے نہیں پڑھا گیا۔۔۔کہ یہ ایک قیامت کی گھڑی ہوتی ہے۔۔۔
Malik Amjad Islam Amjad (Gojra)
محترم رؤف کلاسراء کی یہ کتاب بلاشبہ کسی شاہکار سے کم نہیں، اس میں شامل تحریریں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔امر تحریریں۔ہمیشہ زندہ رہنے والی تحریریں ۔رؤف بھائی کا ہاتھ ہمیشہ معاشرے کی نبض پر رہتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں دل و دماغ پر یقیناً گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔
Ali Abdullah
زنگار اور شاہ جمال کا مجاور ساتھ ساتھ پڑھنا شروع کی ہیں.... زنگار کی تحاریر زیادہ پر اثر ہیں جبکہ شاہ جمال کے مجاور کا کور پیچ بہترین ہے
Muhammad Asad Qasim
الحمداللہ "شاہ جمال کا مجاور" پڑھ لیا۔ کلاسرہ کی یہ دوسری کتاب ہے جو پڑھ لی۔ یقین جانے بہت کچھ سیکھنے سمیت ایک درد بھر لیا سینے میں۔ کلاسرہ صاحب کی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ہمیشہ معاشرے کے پسے ہوئے اور پسماندہ طبقات یا ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے والوں کے لئے کچھ کر گزرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ آج کل جتنا نام بڑا نام اتنا ہی اپنے علاقے اور علاقے کے لوگوں سے کٹا ہوا، لیکن کلاسرہ کا stature جتنا بڑا ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اپنے لوگوں کے لئے درد بڑھتا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ایسے مسائل یا لوگوں پر بات ہوئی ہے جو شہروں میں بڑے بڑے عہدوں پر تعینات بابووں کی ذمےداری ہوتے ہوئے بھی قابل توجہ نہ رہی۔
والد صاحب کا ننھیال 70 کی دہائی سے لیہ کے مختلف علاقوں فتح پور، چوک اعظم، میں لیہ شہر، تحصیل کروڑ میں آباد ہے۔ بچپن میں دادی جان کے ساتھ بہت سفر کیا ہے، جب ڈیرے میں سائکل رکشوں سے لیکر دریائے سندھ پر دریا خان اور ڈیرے کے درمیان کشتیوں کے پلوں سے ہوکر گزرنا، کلاسرہ صاحب جن میلوں کا ذکر کر رہا ہے اس کتاب میں، تو ابو کے ماموں زاد بھائیوں نے ان کی سیر کروائی ہے۔ جو میری یادداشت سے محو ہو چکی تھی، ایسے سامنے رکھ دی جیسے کل کی بات ہو۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے جیسے کلاسرہ صاحب نے انگلی سے پکڑ کر مجھے میرے بچپن کی دوبارہ سیر کروائی ہے۔ میرے لئے یہ کتاب صرف کتاب نہیں بلکہ ناستلجیا بن گئ ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا بھی شدید احساس ہوا کہ پچھلے پندرہ سالوں میں اتنا کم کیوں پڑھا۔ اس لئے ابھی کسر پوری کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہوں، گاوں میں فلمیں دیکھنے پر بڑوں نے سخت پابندی عائد کردی تھی اس لئے یونیورسٹی میں پہنچ کر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ تقریبا تمام پرانی فلمیں دیکھ لیں۔ یہی حال اب کتابوں کا ہے کہ جتنا ممکن ہو کتابوں کے معاملے میں کسر پوری کر دی جائے۔
Rauf Klasra Gagan Shahid Zazy Khan M Aamir Hashim Khakwani
ان سب کا شکریہ کہ ان کی دیکھا دیکھی اس طرف بھرپور کوشش جاری و ساری ہے۔