Gumnaam Gaon Ka Akhri Mazar (5th Edition)

GUMNAAM GAON KA AKHRI MAZAR (5TH EDITION) گمنام گاؤں کا آخری مزار

Inside the book
GUMNAAM GAON KA AKHRI MAZAR (5TH EDITION)

PKR:   1,500/- 1,050/-

Author: RAUF KLASRA
Pages: 360
Year: 2024
ISBN: 978-969-662-282-6
Categories: SHORT STORIES COLUMNS ESSAYS
Publisher: BOOK CORNER

جواہر لعل نہرو نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ اپنے بارے میں لکھنا دُنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ آپ اپنی تعریف کرتے ہیں تو لوگوں کا دِل دُکھتا ہے اور اگر آپ اپنی تعریف نہیں کرتے تو آپ کا اپنا دل دُکھتا ہے۔

میں بھی اس وقت اسی کشمکش کا شکار ہوں۔ میں اپنی تعریف تو ہرگز نہیں کرنا چاہتا لیکن میں اپنی کچھ تحریروں پر بات ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں ہر ادیب کو اپنی تمام تحریریں اپنے سبھی بچوں کی طرح اچھی لگتی ہیں۔ جیسے آپ بچوں میں کوئی فرق نہیں کر سکتے کہ کون زیادہ پسند ہے، ایسے ہی آپ کو اپنی تحریروں کے بارے میں لگتا ہے۔

آپ یقیناً سوچیں گے کہ ان تحریروں میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ آپ جیب سے پیسے خرچ کر کے خریدیں اور پڑھیں۔ یہ تو عام لوگوں کی کہانیاں ہیں، ان میں ایسا کیا خاص ہو گا؟ اس کتاب کو پڑھنے کی یہی تو بڑی وجہ ہے کیونکہ یہ عام لوگوں کی کہانیاں ہیں جن سے آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اور یہی عام لوگ ہی آپ کو خاص لگیں گے۔

اس کتاب میں اس معاشرے کے کُچلے ہوئے گُمنام سے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور یقین جانیے یہ سب سچّی ہیں۔ میرے لیے بڑا آسان تھا میں بڑے لوگوں کی کہانیاں آپ کو سُناتا جو سب لوگ خوشی سے سنتے کیونکہ ہم سب بڑے لوگ بننا چاہتے ہیں اور مجھ سے شاید کچھ متاثر بھی ہوتے۔ ہم وہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جو امیر اور بڑے لوگ گزارتے ہیں۔ ان کا لائف اسٹائل ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس لیے دُنیا بھر میں بڑے لوگوں کی آٹوبائیوگرافیز زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ لوگ پڑھتے ہیں کہ وہ بڑا آدمی کیسے بنا کہ شاید ان کتابوں میں کوئی ایسا نسخہ کیمیا مل جائے کہ وہ بھی اس کی طرح بڑے لوگ بن جائیں۔

ہو سکتا ہے بعض لوگ اسے انسپائریشن کا نام دیں کہ کامیاب لوگوں کو پڑھ کر آپ کے اندر بھی آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ آسمان کو چُھو سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ لیکن یہ طے ہے کہ کسی دوسرے انسان کی زندگی کے طریقے استعمال کر کے آپ اس طرح کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیاب آپ نے اپنے ہی فارمولے سے ہونا ہے۔ لیکن وہی بات کہ کامیاب لوگوں کی باتیں پڑھ کر آپ کو اچھا لگتا ہے۔

لیکن اس کتاب میں کسی بڑے آدمی کی کوئی کہانی نہیں ہے۔ اس میں کسی وزیرِ اعظم، وزیر، سفیر یا سرکاری بابوؤں یا ارب پتیوں سے دوستیوں یا ان سے میل ملاپ کی کہانیاں نہیں ہیں۔ یہ عام سے لاچار اور بے بس انسانوں کی داستانیں ہیں۔ اس لیے اس کتاب کا ہیرو میرے گاؤں کا کمہار چاچا میرو ہے جس کی کہانی لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں کئی دفعہ آنسو آئے اور کافی دیر تک کچھ نہ لکھا گیا، حتیٰ کہ مجھے اپنا قلم چھوڑنا پڑا۔

لیہ کی حسینہ بی بی ہو، ڈرائیور الطاف ہو، یا پھر سکول ماسٹر اسلم کی بیٹی کا المیہ۔ ان معصوم لوگوں کی کہانیاں لکھتے ہوئے مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ ادیب بھی کسی ٹریجڈی سے اتنا ہی متاثر ہوتا ہے جتنا اسے عام پڑھنے والا۔ میرا خیال تھا ادیب بے حِس ہوتے ہوں گے، سخت دِل، وہ خود نہیں روتے، وہ دوسروںکو رُلاتے ہیں۔ لیکن جب میں نے خود لکھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا اگر آپ خود حسّاس انسان نہیں ہیں تو پھر آپ نہ اچھے انسان ہیں اور نہ ہی اچھے لکھاری۔ اگر آپ اپنی کسی تحریر کو لکھتے وقت نہیں روئے تو آپ کا قاری کیسے روئے گا۔ جب تک آپ دوسروں کے دُکھوں پر وہی تکلیف یا درد محسوس نہیں کرتے جو آپ اپنے کسی قریبی کو دیکھ کر محسوس کرتے ہیں تو پھر آپ نہ اچھے انسان بن سکتے ہیں نہ ہی ادیب۔ ادیب اور لکھاری تو بنتے ہی وہ لوگ ہیں جو بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ وہی اچھے انسان اور ادیب بن سکتے ہیں جو دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آپ کا کیا خیال ہے آپ میرے گاؤں کے چاچا خدا بخش قصائی کے دُکھوں پر افسردہ نہیں ہوں گے؟ بوڑھے میاں بیوی جن کا جوان بیٹا کچھ دن پہلے فوت ہو چکا ہے، میں ان کے گھر تعزیت کے لیے جاتا ہوں۔ وہ مجھے دیکھ کر اپنے جوان بیٹے کی موت کو بھول جاتے ہیں اور وہ مجھ سے اپنا نیا دُکھ شیئر کرتے ہیں۔ اب ان کی بیوہ بہو اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کو لے کر وہ گھر چھوڑنا چاہتی ہے۔ بوڑھے میاں بیوی میری منتیں کر رہے ہیں کہ میں انہیں روک لوں۔ وہ اپنے مرحوم بیٹے کی نشانیاں اپنے سامنے رکھ کر زندگی کے باقی دن گزارنا چاہتے ہیں۔ گیبرئل گارشیا مارکیز جیسا ادیب ہوتا تو اس انسانی المیے پر عظیم ناول لکھتا۔ یا پھر ملتان کے ذوالکفل بخاری کی کہانی جو سعودی عرب میں ایک حادثے میں فوت اور وہیں دفن ہوا۔ اس بوڑھے باپ کی داستان جسے ایک دن یتیم پوتوں نے کہا، وہ باپ کی قبر پر مکہ مکرمہ جانا چاہتے ہیں۔ جب بوڑھا دادا اور دو چھوٹے پوتے قبر ڈھونڈنے پاکستان سے جاتے ہیں تو وہاں صرف دو پتھر رکھے ملتے ہیں۔ کوئی اشارہ کرتا ہے یہ رہا تمہارا باپ اور بیٹا۔ اس دُکھ کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ بوڑھا باپ پاکستان سے سعودی عرب پوتوں کے ساتھ مرحوم بیٹے کی قبر کی تلاش میں گیا ہے اور وہاں صرف دو پتھر رکھے دیکھے...!

ملتان کے چار درویش ایسے درویش تھے کہ جن کی محفلوں نے مجھے محبّت کی نئی منزلوں سے آشنا کرایا۔ باقر شاہ کا اپنے بچوں کو کہنا کہ میرا دل چاہتا ہے رؤف کو بھی اپنے بچوں کی طرح جائیداد میں حصہ دوں یا چودھری نیاز جیسا عظیم اور درویش انسان جو رات کو عشا کی نماز سے گھر واپسی پر اپنے بیٹے کی گاڑی میں سے ٹیپ چوری کرتے چور کو اندر سے پیچ کَس لا دے کہ اس سے کھول لو بیٹا۔ چور ڈر جائے تو اسے تسلّی دے اور کہے، کوئی بات نہیں آپ کو اس کی ضرورت ہو گی۔ چودھری نیاز جیسی معصومانہ مسکراہٹ میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ یا اس سولہ سالہ بیٹی کی کہانی جب اچانک اسے پتا چلا کہ اس کا باپ تو مافیا کے لیے لوگوں کو قتل کرتا تھا۔ ہمارے ہاں ایسے بچے کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ یہ کہانی بھی آپ کو ہلا کر رکھ دے گی۔

ادارہ ’’بک کارنر‘‘ جہلم کے مالک شاہد حمید صاحب اس کتاب کا مسودہ پڑھ رہے تھے۔ پڑھتے پڑھتے کسی موقع پر رُک کر انہوں نے اپنے بیٹے گگن شاہد کو میرا کہا کہ انہیں کہیے گا، ”اس کتاب میں نعیم بھائی کے بارے پڑھ کر وہ ان کی محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔“ ہمارا نعیم بھائی تھا ہی ایسا، جو اُن سے ملا اُن سے محبّت کیے بغیر نہ رہ سکا، پھر بھلا شاہد حمید کیسے اس کے طلسم سے بچ پاتے۔

جو تحریر لکھتے ہوئے میں سارا وقت آنسوؤں سے بھیگا رہا وہ The Kite Runner ہے۔ یا پھر 1970ء کی دہائی کے ہندوستان کے ایک ڈپٹی کمشنر کی بیوی کی کہانی جو آپ کا ایمان تازہ کر دے گی، جس نے اپنے خاوند کو کہا تھا کہ تم ہندوستان کی طاقتور ترین وزیراعظم اندرا گاندھی سے مت ڈرنا اور وہی کرنا جو انصاف کہتا ہے، چاہے وہ تم پر آسمان ہی کیوں نہ گرا دے۔ آپ یہ کہانی پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کیا دُنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے؟ یا پھر جنگِ عظیم دوم میں جرمنی میں جنم لینے والے ایک انسانی المیہ کی کہانی جب ایک خاتون گارڈ اس جرم کی عمر قید بھگتنے پر تیار ہوجاتی ہے جو اس نے نہیں کیا ہوتا لیکن وہ راز ججوں کو نہیں بتا سکتی جو اسے رہائی دلا سکتے تھے۔ اسے اپنی عزتِ نفس اور جیل میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا اور اس نے جیل کا انتخاب کیا۔

میرے میانوالی کے بوڑھے دوست ڈاکٹر شیر افگن کے وہ لفظ برسوں بعد بھی دِل پر تِیر بن کر چُبھے ہوئے ہیں، جب انہیں بتایا گیا کہ وہ اب چند دنوں کے مہمان ہیں تو انہوں نے کہا، ”میرے پیارے پھر مجھے میرے گھر لے چلو، میں اپنے دوستوں کے درمیان مرنا چاہتا ہوں۔“ یا ملتان کا وہ نیک جیلر جس نے درجنوں بھارتی قیدیوں کو قتل ہونے سے بچا لیا تھا اور اگر اس رات وہ بھارتی قیدی ملتان کی جیل میں مارے جاتے تو شاید نوے ہزار پاکستانی فوجی جو اکہتر کی جنگ کے بعد بھارتی قید میں تھے، ان کی زندگیاں داؤ پر لگ جاتیں۔ ایک گمنام ہیرو کی کہانی آپ کو رُلا دے گی کہ کیسے بھارتی قیدیوں کی جانیں بچانے کے لیے جیلر تنی ہوئی بندوقوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا تھا۔

فیصل آباد کے ضیاء کی کہانی بھی آپ کو کافی دیر تک افسردہ رکھے گی۔ ایک ایسے باپ کی داستانِ غم جو مجھے اس وقت ملا جب اس کی زندگی کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں اور وہ جینے کا سہارا ڈھونڈ رہا تھا۔ جب اسے سہارا ملا، تب بہت دیر ہوچکی تھی۔ ملتانی کینٹین بوائے کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے جو کبھی کبھار مجھے رات کو بے چین کر کے بستر سے اُٹھا کر بٹھا دیتی ہے۔ یا پھر آپ میرے عزیز طارق چودھری کا پہاڑ جیسا غم کیسے بھلا پائیں گے جسے ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ لورالائی بلوچستان کے ایک ہندو گھرانے کی دُکھی داستان بھی انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ انسانی بربریت سے نفرت کرے اور انسان کے اندر چھپی انسانیت سے محبّت کرے۔ آپ کو بلوچستان کے سُرخ، چٹیل اور بے رحم پہاڑوں میں جنم لینے والی اس دُکھ بھری کہانی میں جہاں خونخوار بھیڑیے ملیں گے وہیں محبت بھرے کردار بھی۔ اگر ایک لمحے آپ کا انسانیت سے اعتبار اُٹھے گا تو دوسرے لمحے آپ انسانیت سے پیار کرنے لگ جائیں گے۔

اس کتاب میں سب عام کہانیاں ہیں۔ آپ اگر بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ کتاب آپ کے کام کی نہیں ہے۔ اس کتاب میں، مَیں نے عام انسانوں کے دُکھوں اور غموں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے ہیرو عام لوگ ہیں، وہی میرے رول ماڈل ہیں۔ میں نے خود اپنے ماں باپ کو ایک دُور دراز گاؤں میں اسی طرح مشکلات اور دُکھوں میں گھرے دیکھا۔ انہیں ساری عمر جدوجہد اور محنت کرتے دیکھا، انہیں مسلسل آزمائشوں کا شکار دیکھا، اس لیے شروع سے ہی میرے ہیرو وہی لوگ تھے۔ میں کسی بڑے آدمی سے متاثر نہ ہو سکا یا یوں کہہ لیں کہ ذِلتوں کے مارے لوگ ہی میری انسپائریشن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا انتساب میں نے گاؤں کے ایک کمہار چاچا میرو کے نام کیا ہے جس پر لکھی گئی ایک طویل کہانی آپ کو کئی دن چین سے نہیں سونے دے گی۔ یہ کہانی میری زندگی میں اتنی اہم ہے کہ اسی پہ کتاب کا نام رکھ دیا ہے۔ اس کتاب میں شامل ہر کہانی سچی ہے، یہ انسانی المیوں، دُکھوں اور غموں کی ایسی داستانیں ہیں جو ضرور آپ کے دل کو گداز کر دیں گی اور ہو سکتا ہے کہ کئی بار آپ کی آنکھیں بھی بھیگ جائیں۔

میں نے برسوں پہلے کتابیں لکھنا چھوڑ دی تھیں۔ صحافت ہی میرا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ شاید آخری کتاب نو سال پہلے 2011ء میں لکھی تھی۔ اب اتنے برس بعد میں ”بک کارنر جہلم“ والوں کے ہاتھ لگ گیا۔ میں بک کارنر کی چھپی کتابیں تو 2012ء سے پڑھ رہا ہوں جب کہ شاہد حمید صاحب اور ان کے صاحبزادوں سے ملاقات 2018ء میں ہوئی تھی۔ باپ اور بیٹے اسلام آباد، کراچی اور لاہور سے دُور ایک شہر جہلم میں بیٹھ کر جس طرح کی اعلیٰ اور معیاری کتابیں شائع کر رہے ہیں اس پر مجھے چھوڑیں شکیل عادل زادہ جیسا مسٹر پرفیکٹ بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔

ان دونوں بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد نے میرے اندر کے سوئے ہوئے لکھاری کو دوبارہ جگا دیا ہے اور بڑی محبّت اور لاڈ کے ساتھ جگایا ہے۔ گگن شاہد کی ایک بات اندر تک اثر کر گئی کہ کتابیں چھاپنا پہلے ہمارا شوق ہے، عشق ہے، جنون ہے... کاروبار بعد میں ہے۔ ان کی محبّت اور جنون ان کی کتابوں پر کی گئی محنت اور معیار میں نظر آتا ہے۔ وہ دراصل کتاب نہیں چھاپتے بلکہ لگتا ہے دونوں بھائی پہلے کتاب کو معشوق کا درجہ دیتے ہیں، پھر اس کی ایک ایک ادا محبّت سے، توجہ کے ساتھ پرکھتے ہیں۔ ایک محبوبہ کی طرح اس کے نخرے اُٹھاتے ہیں، بناؤ سنگھار سے سنوارتے ہیں، پھر کتابی مواد کو مدِّنظر رکھ کر ایسا پُرکشش سرورق بناتے ہیں جسے دیکھ کر کتاب کا نفسِ مضمون صاف جھلکتا نظر آتا ہے۔ آخر میں اس دل کش اور دل ربا کتاب کو خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ یہ کہہ کر آپ کے سپرد کر دیتے ہیں کہ ؎

سپردم بہ تو مایۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را

ایسی کتابیں اگر عشق اور جنون میں لکھی جاتی ہیں تو یقین کریں چھاپی بھی اسی محبّت اور جنون کے ساتھ جاتی ہیں۔

(رؤف کلاسرا)

RELATED BOOKS