JHOOTAY ROOP KAY DARSHAN (DELUXE EDITION) جھوٹے روپ کے درشن (ڈیلکس ایڈیشن)
PKR: 2,000/- 1,200/-
’’میرا یقین ہے کہ جو لوگ انسانوں کے جبلی اور بنیادی جذبات کی قدر کرنا نہیں جانتے وہ ادھورے لوگ ہوتے ہیں چاہے وہ بہت بڑے مصلح ہوں، چاہے بہت بڑے انقلابی۔ راجہ انور کی تازہ تصنیف پڑھ کر مجھے اس لیے خوشی ہوئی ہے۔ نہ جانے مستقبل کے لیے اس نوجوان کےکیا ارادے ہیں، لیکن اگر اس نے سیاسی لیڈر بننا پسند کیا تو یہ ایک ایسا لیڈر ہوگا جسے دیکھ کر نہ ہنسی آئے گی نہ اس سے ڈر لگے گا، بلکہ اس پر پیار آئے گا کیونکہ اس نے پیار کی تمام پرتوں اور مرحلوں کو اپنے خون میں کھپا کر اپنی شخصیت کا ناگزیر حصہ بنالیا ہے۔‘‘
احمد ندیم قاسمی
’’سارے نابالغ ایک سائیڈ پر ہو جائیں اور کان پکڑ لیں!‘‘ ہال میں سراسیمگی پھیل گئی، یہ فقرہ ہم سب کے لیے عجیب تھا، ہمیں بلوغت کی دیواریں عبور کیے مدّت ہو چکی تھی لہٰذا ہم سامنے کھڑے ڈشکرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ڈشکرے نے شیطانی قہقہہ لگایا اور کہا، ’’جس جس نے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پڑھی ہوئی ہے وہ بالغ ہے اور جو ابھی تک اس سے محروم ہے وہ نابالغ ہے، لہٰذا جلدی فیصلہ کرو تم میں نابالغ کون ہے اور بالغ کون؟‘‘ ہم سب بلوغت کے اس ٹیسٹ سے ناواقف تھے، چنانچہ ہم نے چپ چاپ کان پکڑ لیے اور ڈشکرا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے ہماری تشریفوں کا معائنہ کرنے لگا۔
یہ واقعہ 1989ء میں پنجاب یونیورسٹی کے 9 نمبر ہاسٹل میں پیش آیاتھا۔ میں نے تازہ تازہ ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا، ہاسٹل گیا تو پہلی رات سینئر سٹوڈنٹس نے ہماری ریگنگ شروع کر دی۔ سینئرز کا لیڈر منڈی بہائوالدین کا کوئی چدھڑ تھا، شکل اور آواز سے بدمعاش لگتا تھا جبکہ ہم سب چھوٹے چھوٹے چوچے تھے۔ ڈشکرے چدھڑ کا بلوغت کا صرف ایک ہی معیار تھا جس سٹوڈنٹ نے کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پڑھ رکھی ہو وہ اس کی نظر میں بالغ تھا اور باقی نابالغ، ہال میں موجود تمام نئے طالبِ علم اس رات نابالغ نکلے، چنانچہ منڈی بہائوالدین، پھالیہ اور سرگودھا کے گوندل، رانجھے اور چدھڑ ساری رات ہماری تشریفوں پر طبلہ بجاتے رہے۔ میں نے دوسری صبح سب سے پہلے یونیورسٹی کی بک شاپ سے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ خریدی اور شام سے پہلے پہلے بالغ ہو گیا۔
یہ راجہ انور کے ساتھ میرا پہلا تعارف تھا، راجہ انور ایک طلسماتی شخصیت کا نام تھا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا، ذہین اور پڑھاکو تھے، خوب صورت بھی تھے اور بلاکے مقرر بھی تھے چنانچہ پوری یونیورسٹی میں مشہور ہو گئے۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی کنول نام کی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے، یہ دونوں ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے، محبت ختم ہو گئی لیکن خط بچ گئے۔ راجہ انور نے یہ خط ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیے اور اس کتاب نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔ ہمارے زمانے میں یہ کتاب طالبِ علموں کے غیرنصابی نصاب کا حصہ ہوتی تھی، یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی نوجوان پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے اور وہ یہ کتاب نہ پڑھے۔
راجہ انور آج کل پاکستان میں ہیں، میرے گھر کے قریب رہتے ہیں، میں ان سے کبھی کبھار ملتا رہتا ہوں۔ یہ بہت ہی شان دار انسان ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں وِژن، تجربہ اور احساس تینوں نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ میں نے پاکستان میں ان سے بہتر نثرنگار نہیں دیکھا، یہ لفظوں سے نہیں لکھتے، جذبات سے لکھتے ہیں اور قلم سے تحریر نہیں کرتے، شہنائی، بانسری اور ہارمونیم سے تحریر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں بے تحاشا روانی دے رکھی ہے۔ میرا دعویٰ ہے آپ بس ان کی کوئی تحریر شروع کرلیں، یہ آپ کو اس کے بعد دائیں بائیں نہیں دیکھنے دے گی۔ میں جب بھی ان کی تحریریں پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں اگر راجہ انور نہ ہوتے تو ماضی کی یہ بازگشتیں ہم تک کیسے پہنچتیں، ہم ان سے کیسے واقف ہوتے، لہٰذا تھینک یو راجہ صاحب! تُسی گریٹ او۔
جاوید چودھری