PATRAS KE MAZAMEEN (PICTORIAL EDITION) پطرس کے مضامین (مصور ایڈیشن)
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: PATRAS BOKHARI
Tag: 1491
Pages: 160
ISBN: 978-969-662-487-5
Categories: URDU LITERATURE HUMOUR URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
وہ عالم بھی تھے، ادیب بھی، استاد بھی، ہم جلیس بھی، بذلہ سنج بھی، خوش تحریر بھی، سخت گیر منظم بھی، بے فکر بانکے بھی اور آخر میں مدبر اور صاحب سیاست بھی۔ مجھے اس دور کی کوئی ایسی شخصیت معلوم نہیں جس نے اپنے بہت سے لوگوں کے لیے اس قدر لطف و مسرّت دریافت اور تخلیق کی ہو۔
فیض احمد فیض
سب سے پہلے ’’راوی‘‘ میں پطرس کا مضمون ’’کتے‘‘ پڑھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے لکھنے والے نے اس مضمون سے جو درجہ حاصل کرلیا وہ بہتوں کو تمام عمر نصیب نہ ہوگا۔ ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔
رشید احمد صدیقی
پطرس کے مضامین بخاری صاحب کی مزاحیہ طبیعت کے آئینہ دار ہیں۔ مزاح نگاری بظاہر بڑی ہلکی پھلکی شے ہے لیکن طنزنگاری کی طرح ایک لطیف شے کو پیدا کرنے کے لیے ایک بڑی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری تھی اور پھر اسے بیان پر قدرت حاصل تھی، اس لیے وہ بے ساختہ ان حرکات کو دیکھتے سمجھتے اور چمکاتے رہتے تھے۔
صوفی غلام مصطفےٰ تبسم
پطرس کی باتیں.... جی ہاں میں انھیں باتیں ہی کہوں گی کیونکہ ان کی تحریریں بےساختہ بولتی تھیں۔ ان میں بڑی یگانگت اور قربت محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کے زندہ ماحول میں بڑی بےتکلفی سے کھپتی تھیں چھوٹے بڑے سب ہی انھیں پسند کرنے لگے۔ ’’میں ایک میاں ہوں‘‘ ہمارے گھر میں بالکل کیری کی چٹنی کی طرح چٹخارے لے کر پڑھا گیا۔ اماں تک نے پڑھ ڈالا اور جب اپنی پلنگڑی پر بیٹھ کروہ ہنسیں تو پان دان کی کلھیاں پھدک پھدک کر آپس میں ٹکرانے لگیں۔
عصمت چغتائی
جب یہ طالبِ علم تھے تو انھوں نے ”پطرس کے مضامین“ لکھی۔ جب میں طالب علم تھا تو میں نے یہ کتاب پڑھی۔ بظاہر ان کا لکھنا اور میرا پڑھنا زمانہ طالب علمی کی داستان ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور بھی ہے۔ جب میں بچہ تھا، اُس وقت بھی میں نے اسے پڑھا، اب جبکہ بچوں کا باپ ہوں، تو بھی یہ چھوٹی سی کتاب میرا پیچھا نہیں چھوڑتی، ہر وقت اُکساتی رہتی ہے۔ مجھے پڑھو، مجھ سے سیکھو، پہلے جو فقرے مجھے ہنسنے ہنسانے پر آمادہ کرتے تھے، آج غوروفکر پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بوڑھا ہوں گا تو نہ جانے یہ کتاب کیا کیا سلوک نہ کرے۔
محمد طفیل