KARAKNATH کرک ناتھ
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: MUHAMMAD HAFEEZ KHAN
Pages: 400
ISBN: 978-969-662-262-8
Categories: NOVEL
Publisher: BOOK CORNER
اقباسات:
خود ماہین نے بھی اتنے کم دنوں میں اتنے زیادہ ٹھکانے اور اتنے زیادہ مرد بدلے کہ اُسے عورت کے مزاج میں دخیل پردیسی پن اور عدم تحفظ کی وجوہات سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ ہر نئی جگہ اور ہر نئے مرد سے بہت کم وقت میں جڑت کا وصف عورت کو شاید اِسی پردیسی پن اور عدم تحفظ کے ردِ عمل میں عطا ہوا ہو گا کہ جو مردوں کے نزدیک بےوفائی سے عبارت ہے۔ ذیشان بھی اگرچہ تمام راستہ خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا تھا مگرماہین کو گاڑی سے نیچے اُتارنے کے بعد واپس آواز دے کر سمجھانا نہیں بھولا تھا کہ اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو پولیس سے بچ کر رہے ورنہ اُس کے خلاف درج ہو چکے کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس وہی ایک لمحہ تھا کہ جب ذیشان کے چہرے کی سفاکیت ذرا سی ماند پڑی لیکن نجانے کیوں ماہین کو اُس کا یہ رُوپ اچھا نہ لگا۔ وہ اُس کے ہاتھوں پولیس مقابلے میں اُس کی اکاونویں مقتول ہونے کو تو تیار تھی مگر اُس کے چہرے کی سفاکیت کے ماند پڑنے پر کسی صورت بھی راضی نہیں تھی۔ وہ پہلی نظر ہی میں جان چکی تھی کہ اِسی سفاکیت اور اِسی کڑک دھڑک کے نتیجے میں تو ذیشان کی ستواں ناک برچھی بن کر عورتوں کے دل میں اُتر جایا کرتی تھی۔
------
ذیشان اپنا آج کا کھیل ختم کر چکا تھا مگر شدید غنودگی کے باوجود سونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کوٹھی خانے میں سوجانے کا مطلب اچھی طرح سے جانتا تھا، سو سگریٹ پر سگریٹ سلگائے چلا جا رہا تھا۔ جب کہ ماہین تو ابھی ابھی بیداری کے مراحل میں داخل ہوا چاہتی تھی کہ جھٹک دی گئی، سو پھر سے خول میں بند ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اُس خول میں چھوٹے چھوٹے پانچ مردوئے بھی گھسنے اور گھس بیٹھنے کی کوششوں میں تھے۔ طیفا کھوتا، الیاس، رمضان، کالا اور شادا___وہ پانچوں اپنی فطری درندگی کے باوجود ماہین کو معصوم سے لگ رہے تھے۔ جیسے تھے کم از کم دِکھتے تو ویسے تھے، نہ کہ ذیشان کی مانند، جونہیں تھا وہ دِکھا اور جو تھا وہ دِکھا ہی نہیں۔
------
ماہین جس کوٹھی کے سامنے اُتری وہ اُس کی منزل نہیں تھی۔ ذیشان کے چلے جانے کے بعد وہ پیدل چلتی ہوئی اُسی لین میں تیسری کوٹھی کے گیٹ پر جا کر رُکی اور ادھ کھلے لکڑی کے گیٹ کے دائیں ستون پر نصب الیکٹرک گھنٹی کے بٹن کو دبا کر کسی کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ دل میں پیوست ذیشان کی مردانہ وجاہت کی برچھی کے باوجود زندہ رہنے کی جدو جہد میں اُس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ صنفی فہم کا تعصب ہے یا عورت ہونے سے جڑی ہوئی محتاط روی کہ وہ مرد کو عمومی طور پر ایک سنگل پیکج گرادننے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر قبول یا رَدّ کرتی ہے جب کہ مرد عورت کو ہمیشہ ایک سنگل پیکج ہی سمجھتا اور اُسے اُسی طور قبول یا رَدّ کرتا ہے۔ عورت کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ جس مرد کو اُس نے ایک معاملے میں قبول کیا ہو وہ اُسے اپنی ذات سے جڑے ہوئے باقی معاملات میں بھی قبول کرتی ہو، جب کہ مرد کو اُس کی تصوراتی برتری کا زعم عورت سے تعامل کے معاملات میں اِس کے برعکس باور کرائے رہتا ہے، یہی سبب ہے کہ وہ اُسے آسان لیتا ہے اور ہمیشہ خسارے میں رہنے کے باوجود خسارہ ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔
------
کچھ مصنف کے بارے میں:
محمد حفیظ خان ایک معتبر محقق، مؤرخ ،نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور صحافی کے طور پر منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ گزشتہ 48 برسوں سے علم وادب کی مختلف اصناف میں گراں قدر اضافے کا باعث ہوتے ہوئے بھی انہوں نے پیشہ ورانہ لحاظ سے مختلف جہتوں میں ناموری حاصل کی۔ 1980 ء میں وکالت سے آغاز کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان کو بطور پروڈیوسر جائن کیا اور بعدازاں جامعاتی سطح پر قانون کے مدرس رہے۔ یکے بعد دیگرے وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصہ رہنے کے بعد ضلعی عدلیہ میں شمولیت حاصل کی جہاں سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر فائز رہنے کے علاوہ حکومت ِ پنجاب میں ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ قانون و پارلیمانی امور اور پنجاب سروس ٹربیونل کے ممبر اور چیئرمین بھی رہے۔ ملک کے مایہ ناز تربیتی اداروں میں قانون اور ادب کی تدریس کے علاوہ اِن دنوں وفاقی جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں تدریسی اور انتظامی امور بھی اُن کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ 1965ء میں بچوں کے ادب سے ادبی زندگی کا آغاز کرنے والے محمد حفیظ خان نے1971ء سے باقاعدہ افسانہ نگاری اور 1975ء میں ریڈیو پاکستان بہاول پور کے لیے ڈرامالکھنے کی شروعات کرتے ہوئے اب تک دو مرتبہ اکادمی ادبیات کے ہجرہ ایوارڈ (1989-1990ء) اور قومی سول ایوارڈ ’’تمغۂ امتیاز‘‘ (2011ء) حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن سے بہترین ڈراما نگار کا ایوارڈ (2002ء) اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کی رکنیت ، ’’کمالِ فن ‘‘ایوارڈ کی جیوری میں کئی بار کی شمولیت، اکادمی کی اشاعتی کمیٹی، ترجمہ کمیٹی اور وظائف کمیٹی کی رکنیت بھی اُن کے اعزازات میں شامل ہیں۔ ’’پلاک ‘‘کی جانب سے گزشتہ برس اُن کی کتاب ’’پٹھانے خان‘‘ پرشفقت تنویر مرز ایوارڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں تین مرتبہ ’’کتاب کا سفیر‘‘ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اُردو اور سرائیکی افسانہ ، ڈراما، شاعری، تحقیق، تنقید، تاریخ اور کالم نگاری اگرچہ اُن کے خاص شعبے ہیں لیکن حال ہی میں اُن کے ناول ’’اَدھ ادھورے لوگ‘‘ اور ’’اَنواسی‘‘نے قومی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔
Reviews
Umar Baig (Gujrat)
Basit Khattak (Karak)
نہیں معلوم محمد حفیظ خان کس طرح سے اتنی ذمہ داریاں نبھا لیتے ہیں۔ ایک معتبر محقق، مؤرخ، نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور صحافی کے طور پر اپنی پہچان نہ صرف بنائے ہوئے ہیں بلکہ منوا چکے ہیں۔ وکالت سے آغاز لینے کے بعد ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر، قانون کے معلم اور پھر وفاقی و صوبائی سروس سروس سے وابستہ رہ کر آخر ضلعی عدلیہ کا بھی حصہ بنے اور سیش جج بن کر انصف کی مسند پر براجمان رہے۔ پنجاب حکومت میں سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور کے علاوہ پنجاب سروس ٹریبونل کے ممبر و چئیرمن کی کرسی سنبھالی ___ وغیرہ۔ تاہم ان منصبی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ قلم سے بھی رشتہ برقرار رکھا۔
پچھلے سال انواسی جیسے خوبصورت ناول کے بعد یہ دوسرا ناول ہے جو بک کارنر جہلم سے شائع کیا گیا ہے۔ کہتے تھے ہیں کہ کرک ناتھ اس کالے رنگ کے مرغ کو کہا جاتا ہے جس کے پر، چونچ، کلغی اور پاؤں کے علاوہ خون، گوشت اور ہڈیاں تک بھی کالی ہوتی ہیں۔ یہ ایک علامت ہے جو نہ ہمارے معاشرے کے کالے کرتوت والے کرداروں کے لیے استعمال میں لائی گئی ہے بلکہ یہ علامت پوری سوسائٹی کے کالے چہرے کی عکاسی کرتی ہے۔ ناول میں یوں تو بہت سے کردار آشکار ہوتے ہیں لیکن کہانی کا سرا یوں آغاز لیتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والی دوستی ایک لڑکی کو کن مصائب سے دوچار کرتی ہے اور اس کی زندگی کس طرح بالکل ہی دوسری سمت گامزن ہو جاتی ہے۔ طاقت کے نشہ اور ذریعے سے کام لینے والا مفاد پرست طبقہ کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون اور انصاف، انسانیت اور اخلاق کو پیروں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔ عورت کس طرح جنسی طور پر بطور ایک جنس پیش کی جاتی ہے ۔۔۔۔ جنسی بے راہ روی بلکہ ہم جنس پرستی کے ردعمل میں اٹھنے والے مفعول کردار کس طرح قاتل بن کر ابھرتے ہیں ___ یہاں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ صاحب کی مجھ سے بیان کی گئی ایسی کئی ایک زندہ مثالیں یاد آ جاتی ہیں جن میں مفعول کردار آخر میں فاعلین کے قاتل ٹہرے تھے ___
معاشرتی گورکھ دھندے کا بظاہر نیک اور پارسا نظر آنے والا طبقہ اندر سے کیا ہے، یہاں بہت سے کرداروں سے پردہ سرکایا گیا ہے۔ ایک خوبصورت ناول جسے ہر قاری کو پڑھنا چاہیے۔
کرک ناتھ کو بک کارنر جہلم نے اپنی روایتی دلکشی کے ساتھ اعلیٰ کاغذ پر دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔
(شروع کے چند صفحات کی طرح اگر پوری کتاب سیاہ کاغذ پر سفید رنگ کی لکھائی کے ساتھ چھاپی جاتی تو اس کی صوری معنویت دوچند ہو جاتی __ لیکن شاید پڑھنے میں دشواری کو مدنظر رکھ کر ایسا نہیں کیا گیا حالانکہ شروع کے سیاہ صفحات اچھی طرح سے پڑھے جا سکتے ہیں)