Mere Muhtaram

MERE MUHTARAM میرے محترم

Inside the book
MERE MUHTARAM

PKR:   2,800/- 1,960/-

Author: JAVED SIDDIQUI
Pages: 408
Year: 2024
ISBN: 978-969-662-572-8
Categories: BIOGRAPHY MEMOIRS KHAKAY / SKETCHES
Publisher: BOOK CORNER

سنا تھا کہ بچے فرشتوں کی ڈاک سے بھیجے جاتے ہیں، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو گا مگر خدا جانے فرشتوں کے دل میں کیا آئی کہ مجھے رامپور کے ایک ایسے خاندان میں تقسیم کر دیا جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ ادیبوں، شاعروں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی بھرمار تھی۔ کچھ ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے دور دور تک خاندان کا نام روشن کیا، جیسے علی برادران، یعنی مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی جو برّصغیر کی سیاست کا ایک ایسا ورق ہیں، جس کے بغیر آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ اسی خاندان میں حافظ احمد علی خاں شوقؔ بھی تھے جنھوں نے ادب، تحقیق اور تذکرہ نگاری میں بہت سے سنگ میل قائم کیے۔ ان کاایک عظیم کارنامہ ’’تذکرہ کاملانِ رامپور‘‘ ہے، جس کو کسی حد تک ریاست رامپور کی تاریخ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ حافظ احمد علی خاں صاحب، نواب رامپور کے وزیروں میں سے ایک تھے اور وہ رضا لائبریری کے پہلے لائبریرین بھی تھے۔ اُس وقت یہ لائبریری شاہی کتب خانہ کہلاتی تھی۔ اور وہ پہلے آدمی تھے جنھوں نے انگریزی کی طرز پر لائبریری کیٹلاگ بنوایا، جو آج بھی رامپور رضا لائبریری میں موجود ہے۔ حافظ صاحب کے ایک پوتے مشہور پینٹر شاکر علی تھے، جن کو پاکستان میں جدید مصوّری کا امام کہا جاتا ہے۔ حافظ صاحب کے اور ایک پوتے شجاعت علی رامپور رضا لائبریری کے اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے برسوں کام کرتے رہے، بعد میں سیاسی میدان میں نام کمایا اور ہر سچّے محب وطن کی طرح جیل کی صعوبتیں بھی اٹھائیں۔ یہ شجاعت علی صاحب میرے والد تھے۔

آنکھوں نے دیکھنے کا سلیقہ سیکھا تو پہلی نظر اُن ہزاروں کتابوں پر پڑی جو پر دادا حافظ احمد علی شوق کی کوٹھی میں اس طرح پڑی ہوئی تھیں کہ دھول اور دیمک کے سوا اُ ن کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے ان کتابوں پر بڑا ترس آیا اور میں نے سیکڑوں کتابیں جو وقت کی دست بُرد سے بچ گئی تھیں، پڑھ ڈالیں۔ کچھ سمجھ میں آئیں کچھ نہیں آئیں مگر پڑھنے کا ایسا چسکا لگا کہ یہ بُری عادت آج تک نہیں چھوٹی۔ میں سترہ برس کا تھا کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور مجھے بمبئی آنا پڑا، جہاں اپنے خاندانی اخبار ’’خلافت‘‘ میں صحافی کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ بہت سے دوسرے اخبارات میں بھی نوکریاں کیں اور پھر اپنا اخبار ’’اردورپورٹر‘‘ نکالا جس سے 1975ء تک وابستہ رہا۔

صحافت کے ساتھ جس چیز نے مجھے اپنی طرف سب سے زیادہ متوجہ کیا، وہ تھا ڈراما۔ 1968ء میں انڈین پیوپلز تھیٹرایسو سی ایشن (اِپٹا) سے وابستہ ہوا او ر بہت سے سٹیج ڈرامے لکھے اور ڈائریکٹ کیے، جن میں ’’تمھاری امرتا‘‘، ’’بیگم جان‘‘،’ ’ہم سفر‘‘اور ’’اندھے چوہے‘‘ بہت مقبول ہوئے اور آج تک سٹیج کیے جارہے ہیں۔ 1975ء میں ایمرجنسی کے زمانے میں جب صحافت کا دروازہ بند ہوا تو فلمی دنیا کے دروازے کھل گئے اور تب سے اب تک 90 سے زیادہ فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں، جن میں ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘، ’’امراؤ جان‘‘، ’’بازی گر‘‘، ’’ڈر‘‘ اور ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ ‘جیسی کئی فلمیں بہت مقبول ہوئیں۔

بمبئی شہر میں جو اب ممبئی کہلاتا ہے، کسی بھی نو وارد کے لیے پاؤں ٹکانا بے حد مشکل کام ہے، یہاں اتنی پھسلن ہے کہ امید کی انگلی پکڑ کے چلنے پر بھی قدم قدم پر گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہاں ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ممبئی کسی کو منہ نہیں لگاتی لیکن اگر کوئی ڈھیٹ جم ہی جائے اور ہلنے کا نام ہی نہ لے تو پھر قبول بھی کر لیتی ہے اور اس طرح نوازتی ہے کہ دامن چھوٹا پڑجاتا ہے۔ میری جدوجہد کا دور بھی بہت سخت تھا، اُس زمانے میں ایک اسسٹنٹ ایڈیٹر کو زیادہ سے زیادہ ایک سو بیس روپے مہینہ اور ایڈیٹر صاحب کو مبلغ ڈھائی سو روپے ملا کرتے تھے۔ مہنگائی اُس وقت بھی دروازے پر چوکی دار کی طرح بیٹھی دکھائی دیتی تھی لیکن قسمت اچھی تھی کہ کچھ اچھے لوگ مل گئے اور زندگی کی کانٹوں بھری کچّی پگڈنڈی پر چلنا آسان ہو گیا۔ اُن میں ایک ایسی لڑکی بھی تھی جس نے بڑی خاموشی سے ہمت بڑھانے، حوصلہ دلانے اور دامے، درمے تو نہیں مگر قدمے، سخنے مدد کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا کے نہیں رکھی۔ کچھ احسانات بڑے عجیب ہوتے ہیں، اُنھیں لفظوں میں بیان کرناآسان نہیں ہوتا، اور نہ ان کا صلہ دیا جا سکتا ہے، لیکن دینا تو پڑتا ہے۔ یہاں میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میری وہ خاموش محسن اب میری بیوی ہے اور میرے چار بچوں کی ماں بھی ہے۔

وقت نے مجھے اپنے خزانے سے اتنا کچھ دیا کہ’ ’گنواؤں تو گنوا بھی نہ سکوں‘‘۔ خاص طور سے فلموں نے مجھے دولت بھی دی اور شہرت بھی مگر وہ تخلیقی تسلی نہ مل سکی جس کی تلاش تھی۔ ایک دن جب تنہا بیٹھا ہوا غمِ جہاں کا حساب کر رہا تھا، تو کچھ لوگ بے حساب یاد آئے، اُن کی جلتی بجھتی یادوں کو کاغذ پر جمع کیا تو کچھ خاکے تیار ہو گئے۔ میری خوش قسمتی کہ ان خاکوں کو ادب نوازوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اتنی ہمت بڑھائی کہ ایک کتاب شائع ہو گئی جس کا نام ’’روشن دان‘‘ تھا۔ پذیرائی اور ہمت افزائی کا سلسلہ بڑھا تو خاکوں کے دو اور مجموعے ’’لنگرخانہ‘‘ اور ’’اُجالے‘‘ بھی منظرِ عام پر آ گئے۔ اب اِن تینوں کتابوں کے تمام خاکوں کو جمع کر کے ’’میرے محترم‘‘ کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ سارے پھولوں کو ایک گلدان میں سجانے کا یہ نایاب خیال میرا نہیں ہے، اس کے پیچھے بک کارنر جہلم کے روح رواں بھائی امر شاہد کا ذہن رسا کار فرما ہے۔ میں ان کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری نیم ادبی کوششوں کو خود بھی سراہا اور ادب نوازوں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا۔

جاوید صدیقی
(ممبئی)

RELATED BOOKS