Naushad Ki Khudnawisht | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

NAUSHAD KI KHUDNAWISHT موسیقار اعظم نوشاد کی خودنوشت

NAUSHAD KI KHUDNAWISHT

PKR:   480/-

Author: NAUSHAD
Tag: 1664
Pages: 382
Categories: AUTOBIOGRAPHY

اسی کی دہائی میں برصغیر کے موسیقار اعظم نوشاد صاحب کی خودنوشت شمع دہلی میں قسط وار شائع ہوئی تھی جو کہ اسوقت بہت مقبول بھی ہوئی تھی۔ نوشاد صاحب اپنی زندگی کے حالات ظہیر ناصر سے بیان کرتے رہے جو کہ ظہیر ناصر قسط وار چھپواتے رہے۔ اس کے بعد یہ پاکستان کے ایک ماہنامہ ڈائجسٹ سرگزشت میں 2005 میں شائع ہوئی۔ اور پھر سن 2006 میں اسے فرید بک ڈپو نے کتابی شکل میں نئی دہلی سے شائع کیا۔ لیکن بہت جلد یہ کتاب نایاب ہوگئی۔ اب ایک عرصے سے نوشاد کے چاھنے والے اس کتاب کو ڈھونڈنے کی کوشش کررہے تھے۔ اور اس سلسلے میں نامور جوان محقق راشد اشرف سے بھی کافی لوگوں نے دریافت کیا۔ راشد اشرف جو کہ پرانی کتابوں کو سکین کرکے انٹرنیٹ پر مفت محفوظ کرنے اور ماضی کے عظیم اور گمنام شخصیات کی خودنوشت کو مناسب قیمت پر چھپوا کر سامنے لانے کیوجہ سے بہت شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ نوشاد کی خودنوشت کو ایک بار پھر سے کتابی شکل میں ضرور شایع ہوجانا چاہیئے۔

مالی پریشانیوں کے باوجود نہایت مناسب قمیت کے ساتھ راشد اشرف نے نوشاد کی خودنوشت کو اب شایع کردیا ہے۔ اس بار اس خودنوشت میں کافی معلومات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس خودنوشت میں نوشاد صاحب نے فلمی دنیا اور موسیقی سے وابسطہ افراد کا ذکر ہے۔ اور ساتھ ہی نوشاد صاحب نے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات اور چھوٹی بڑی باتوں کا ذکر بھی کیا ہے
لکھنؤ کے لاٹوش روڈ پر سازوں کی ایک دکان ہوا کرتی تھی بھوندو اینڈ کمپنی۔
ایک چھوٹا بچہ بار بار دکان کے چکر لگاتا، دکان کے مالک غربت علی نے اس سے پوچھا تم ان سازوں کو کیوں گھورتے رہتے ہو؟

بچے نے جواب دیا کیونکہ میں انھیں خرید نہیں سکتا۔ اس کے ساتھ ہی بچے نے پوچھا کیا میں دکان میں جھاڑو پوچھا لگانے کا کام کر سکتا ہوں؟

غربت علی نے بچے کو رکھ لیا۔ ایک دن جب وہ دوکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بچہ ہارمونیم پر اپنی انگلياں نچا رہا ہے، اور اس کی دھن ہر طرف پھیل رہی ہے۔
ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﯿﻢ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮩﻤﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﺐ ﺭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺮ ﻏﺮﺑﺖ ﻋﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻏﺮﺑﺖ ﻋﻠﯽ ﻧﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺩﮐﺎﻥ ﮐﯽ ﺻﺎﻑ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﺳﺎﺯﻭﮞ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﭽﮧ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻏﺮﺑﺖ ﻋﻠﯽ ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﯿﻢ ﭘﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺤﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﮦ ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﯿﻢ ﺍﺳﮯ ﻣﻔﺖ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ۔

ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺎﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻭﮦ ﺑﭽﮧ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﻟﯽ ﻭﮈ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺳﯿﻘﺎﺭِ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﻮﺷﺎﺩ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﺍ۔

لکھنؤ میں عدالت کے ایک منشی جناب واحد علی کے گھر میں 25 دسمبر 1919ء کو ایک ستارہ روشن ہوا جس کا نام نوشاد علی رکھا گیا۔ آٹھ برس کی عمر سے ہی اس بچہّ کو سنگیت سے والہانہ محبت ہو گئی اور یہ محبت اتنی بڑھی کہ وہ اپنی اسکولی پڑھائی کونظرانداز کر کے گانے بجانے میںوقت صرف کرنے ، سنگیت کی نشستوں میں شرکت کرنے اور سنیما گھر کے چکر لگانے لگا۔ جسکی اس کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔

پھر ایک دن 1937ء میں نوشاد لکھنؤ کو خدا حافظ کہہ کر بمبئی چلے گئے۔ جیسا کہ انھوں نے خود بتایا ہے ریل کا کرایا ان کے ایک دوست نے دیا تھا۔ جب وہ بمبئی پہنچے تو وہ کسی کو نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’’ میں ایک ایک مہنہ تکتا تھا۔۔۔‘‘ وہ فلم اسٹوڈیوز کے پیدل چکر لگاتے رہے۔ کہ شاید کہیں کام مل جائے۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فلمی سنگیت کے آسمان پر جگمگانے لگے اور اپنے ساتھ بہت سے روپوش ستاروں کو بھی روشن کر دیا۔ اور اپنے شہر لکھنؤ کا نام بھی اور اونچا کردیا جس کے ہر محلے کوچے میں نوشاد کے سنگیت اور دھنوں کی دھوم تھی۔ اہل لکھنؤ کو فخر تھا کہ نوشاد نے اپنے شہر کا نام سارے ملک میں چمکا دیا ہے۔ نوشاد نے اپنی زندگی میں بہت سی صعوبتوں کا سامنا کیا تھا ۔خصوصاًبمبئی پہنچنے کے بعدانھوں نے دربدر کی خاک چھانی تھی۔ انسان کو جائے پیدائش اور جائے رہائش سے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نوشاد ممبئی کا ہوکر کبھی لکھنو کو بھول نہ پایا۔

ﻓﺮﻭﺭﯼ 1993 کے ایک خط میں اپنے بچپن کے ایک دوست نصیب اللہ کو نوشاد صاحب نے لکھا ہے۔

ﺁﭖ کا خط پڑھ کر سبکی یاد آنے لگی۔ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺑﭽﭙﻦ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﮭﻮﻡ ﮔﯿﺎ۔ ﺧﺪﺍ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮐﮭﮯ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮨﮯ۔ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﯽ ﭨﮭﮩﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﺋﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﯿﮟ ﺍﮮ ﻛﻢ ﺑﺨﺘﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﻭ، ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮍﮬﮯ ﮔﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﮑﯿﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﻣﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﺳﮯ ﻟﭙﭧ ﮐﺮ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺧﻮﺏ ﺭﻭﺅﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮍﯼ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺳﺘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔

نوشاد آخری بار 2002 میں لکھنؤ آئے تھے۔
اس وقت ان کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ وہ آخری موقع تھا جب نوشاد لکھنؤ آئے تھے۔ ایک بھر پور عمر گزارنے کے بعد نوشاد صاحب کا انتقال 5 مئی 2006 کو ممبئی میں ہوا۔

سیفی سرحدی

RELATED BOOKS