Fasana e Ajayb

FASANA E AJAYB فسانہ عجائب

FASANA E AJAYB

PKR:   750/-

فسانہ عجائب رجب علی بیگ سرورؔ کی لکھی ہُوئی داستان ہے۔

بقول شمس الدین احمد،
”فسانہ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا۔ اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“
سرور 1786ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور1867ء کو بنارس میں وفات پائی۔ سرور کو فارسی اور اردو پر پوری پوری دسترس حاصل تھی۔ شعر و شاعری کے بڑے شوقین تھے۔ فسانہ عجائب ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے۔ جوایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشاء کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفٰفی اور مسجع، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔
اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پرتکلف انداز تحریر پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اور اس کا ثبوت باغ و بہار کی سادہ و سلیس نثر ہے۔ تاہم پھر بھی اکثر ادبا ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے قدیم طرز کے دلدادہ اور اور پرستار رہے۔ رجب علی بیگ سرور بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے تھے۔ چنانچہ باغ و بہار کے آسان اور عام فہم اسلوب پر اس زمانے میں اعتراضات کیے جانے لگے تو انہوں نے اس کے مقابلے میں ”فسانہ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور گراں عبارت لکھ کر ”باغ و بہار“ کی ضد پیش کی۔ اور اس زمانے میں خوب داد حاصل کی۔

RELATED BOOKS