GAWAHI AKHIR E SHAB KI گواہی آخرِ شب کی - کچھ افسانے، کچھ یادیں
GAWAHI AKHIR E SHAB KI گواہی آخرِ شب کی - کچھ افسانے، کچھ یادیں
PKR: 1,600/-
Author: ALTAF FATIMA
Categories: SHORT STORIES AUTOBIOGRAPHY FALL OF DHAKA / EAST PAKISTAN
Publisher: JUMHOORI
”گواہی آخر ِ شب کی“ ممتاز پاکستانی ادیبہ الطاف فاطمہ کے لازوال افسانوں اور اُن کی یادوں کے بے بہا خزینے سے چند انمول موتیوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں افسانوں کے علاوہ،اُن کی والدہ سیدہ ممتاز جہاں بیگم، ان کے ماموں منفرد افسانہ نگار سید رفیق حسین ، اختر حسین رائے پوری، شاہد احمد دہلوی اور چند دیگر شخصیات سے متعلق ان کی یادیں بھی شامل ہیں۔
جیتے جاگتے محسوس ہونے والے کرداروں اور دل گداز کہانیوں کی خالق الطاف فاطمہ کا تخیل بھرپور، نثرمسحور کن، کردار نگاری جان دار، منظرکشی اور جزیات نگاری طلسماتی حد تک دلآویز ہے جس باعث ان کی تحریریں پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہیں۔ان کے اجداد کا وطن خیرآباد تھاجو 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد ریاست پٹیالہ میں آباد ہوگئے۔والد فضل امین، علی گڑھ سے فارغ التحصیل اور ریاست جاورہ کے چیف سیکریٹری تھے۔دیوانِ غالب کے مرتب اور انگریزوں سے حبس ِ دوام کی سزا پانے والے علامہ فضل حق خیرآبادی اورہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھے جانے والے پہلے ناول ”نشتر“ کے خالق حسین شاہ کا علمی و ادبی کام انہیں وراثت میں ملاکہ دونوں کا تعلق اُن کے خاندان سے تھا۔ منفرد افسانہ نگار سید رفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے۔اس قدر زرخیز ادبی وراثت کی حامل الطاف فاطمہ کی لازوال تحریریں یقینا اس قابل ہیں کہ اردوزبان و ادب انہیں فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔ اپنا پہلا ناول ”نشانِ محفل“ انہوں نے زمانہ طالب علمی ہی میں تحریر کیا۔ ریڈیو کے لیے لاتعداد فیچرز لکھے۔ عالمی ادب پاروں کے اردو تراجم بھی کیے۔ آخر لمحے تک قلم ان کے ہاتھ میں رہا۔ پروفیسر الطاف فاطمہ درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور اپنا تعارف انہیں بحیثیت استاد کروانا ہی پسند رہا۔الطاف فاطمہ 10جون 1927ءکو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ زیرنظر کتاب ”گواہی آخر ِ شب کی“ اشاعتی مرحلے میں تھی اور وہ اس کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لے رہی تھیں جب29نومبر 2018ءکو وہ اپنے اگلے سفر پر روانہ ہوئیں۔