Gorky ki Aap Beeti

GORKY KI AAP BEETI گورکی کی آپ بیتی

GORKY KI AAP BEETI

PKR:   1,200/-

ایک تنگ و تاریک کمرے میں کھڑکی کے پاس میرا باپ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ وہ ایک بہت لمبی سفید چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ اس کے ننگے پاؤں کی انگلیاں ٹیڑھی ہو گئی تھیں۔ اس کی مسکراتی ہوئی آنکھیں تانبے کے دو سیاہ ٹکڑوں کے بار سے بند تھیں۔ چہرے کا نور اڑ چکا تھا اور وہ جس بھیانک ڈھنگ سے اپنے دانت دکھا رہاتھا اس سے مجھے وحشت ہونے لگی تھی۔ میری ماں دو زانوں بیٹھ گئی اور بابا کے نرم و دراز بالوں کو اسی کالی کنگھی سے سلجھانے لگی جس سے میں تربوز کے چھلکے اتارنے کا کام لیتا تھا۔ وہ اپنی بھرائی ہوئی دھیمی آواز میں لگاتار بڑبڑاتی جاتی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ آنسوؤں کی موسلا دھار جھڑی اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کوبہالے جائے گی۔ میری نانی میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھی۔ اس کا سر بڑا اور گول تھا۔ آنکھیں پھیلی پھیلی اور ناک پھولی پھولی سی۔ اس بڑھیا کی شخصیت بہت دل چسپ تھی۔ وہ بھی رو رہی تھی اور اس کا دکھ میری ماں سے کسی طرح کم نہ تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ایک بار اس نے مجھے بابا کی طرف دھکیل دیا۔ لیکن خوف و ہراس کے مارے میں اس کے پیچھے چھپ گیا۔ اس سے پہلے میں نے عمر رسیدہ لوگوں کو کبھی روتے نہ دیکھا تھا۔ نہ وہ الفاظ میری سمجھ میں آئے جنہیں میری نانی بار بار دہراتی جاتی تھی: ’’باباکو خدا حافظ کہہ لے! اب تو اسے کبھی نہ دیکھے گا۔۔۔ وہ مر گیا۔ ہائے کیسا نامراد چلا!‘‘ میں ابھی ابھی سخت بیماری سے اٹھا تھا۔ خوب یاد ہے کہ مجھے روگ لگنے کے بعد بابا مجھے کس طرح ہنسایا کھلایا کرتے تھے لیکن وہ دفعتاًغائب ہو گئے اور ان کی جگہ میری نانی آگئی جس سے میں قطعاً نامانوس تھا۔ میں نے پوچھا: ’’تم کہاں سے چلی آئی ہو؟‘‘ نِجنی سے اور کہاں سے! میں کوئی پاؤں پیدل آئی ہوں۔ اگن بوٹ مجھے یہاں لایا ہے۔ ارے بھُتنے پانی پر بھی کوئی چلتا ہے۔‘‘ یہ بات میرے لیے سراسر انہونی تھی۔ اوپر کی منزل میں ایک ڈڑھیل مگر بانکا ترچھا ایرانی رہتا تھا اور نچلی کوٹھری میں ایک زردرو کلمک آباد تھا جو بھیڑ کی کھا ل بیچا کرتا تھا۔ جس کا جی چاہے سیڑھی سے اوپر چڑھ سکتا تھا اور گر گیا تو نیچے لڑھک سکتا تھا۔ یہ تو میرا ذاتی تجربہ تھا لیکن یہاں پانی کی گنجائش کہاں تھی؟ نانی کی کہانی تھی تو بے پر کی لیکن اس کے بے تکے پن میں بھی بڑا لطف تھا۔ ’’اچھا، تو میں بھُتنا کیوں ہوں؟‘‘ ’’کیوں؟ اس لیے کہ تو اتنا چیختا چلاتا ہے‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ اس کی آواز میں مہرو محبت تھی اور پہلے ہی دن ہم دونوں میں دوستی ہوگئی۔ اب میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ جلدی سے مجھے اس کمرے سے نکال لے جائے۔ اماں نے مجھے اپنے سے چمٹا لیا۔ اس کی ہچکیاں اور آنسو مجھے بے چین کرنے لگے۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے اس حال میں دیکھا تھا۔ ہمیشہ سے وہ کم سخن اور سخت گیر تھی۔ چکنی چپڑی، ہٹی کٹی۔ اس میں بلا کی سکت تھی اور اس کے بازو آہنی سلاخوں کی طرح مضبوط تھے۔ لیکن اس وقت وہ کانپتی بسورتی ہوئی بالکل بے دم ہوئی جارہی تھی۔ اس کے بال، جن کا جُوڑا بڑی صفائی سے گندھا ہوا ایک چوڑی سی خوبصورت ٹوپی کے نیچے چھپا رہتاتھا، اب بکھر کر اس کے شانے اور چہرے پر پھیل گیا تھا۔ کچھ لٹیں بابا کے بے حس چہرے پر جھولنے لگیں۔ گو میں دیر سے کمرے میں مبہوت کھڑا تھا، لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی مجھے نہ دیکھا۔ بابا کی زلفوں کو سلجھانے اور فغاں و فریاد کے سوا اور کچھ کرنے سے وہ معذور ہو چکی تھی۔ اتنے میں کچھ سیاہ فام گورکن ایک سپاہی کے ساتھ اندر جھانکنے لگے۔ سپاہی بگڑ کر چلانے لگا: ’’چلو، نکلو یہاں سے! دیر نہ کرو!‘‘ کھڑکی پر ایک سیاہ چادر ڈال دی گئی تھی اور وہ ہوا کے مارے بادبان کی طرح پھول گئی تھی مجھے یہ بات یوں معلوم ہوئی کہ ایک روز بابا مجھے پاس والی ڈونگی پرلے گئے تھے۔ اتنے میں بجلی زور سے کڑکنے لگی اور بابا نے مجھے گھٹنوں پر بٹھا کر ہنستے ہوئے کہا: ’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ یک بیک میری ماں فرش پر لیٹنے لگی اور اس کے بال خاک آلودہ ہوگئے۔ اس کا زرد چہرہ بالکل بے رنگ ہو گیا۔ بابا کی طرح دانت نکال کر اس نے کہا : ’’دروازہ بند کردو!۔۔۔ الکسی یہاں سے ہٹ جا۔‘‘ مجھے ایک طرف ہٹا کر نانی دروازے کی طرف یہ کہتی ہوئی جھپٹی: ’’دوستو ڈرو نہیں ہمیں دق نہ کرو۔ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔ اسے ہیضہ نہیں۔ وہ درد میں مبتلا ہے۔۔۔خدا کا واسطہ ہٹ جاؤ۔‘‘ کونے میں صندوق کے پیچھے میں دبک گیا۔ وہاں سے کیا دیکھا کہ ماں ہانپتی ہوئی زمین پر تڑپ رہی ہے۔ نانی اس کے پاس بیٹھی ہوئی بڑے نرم انداز میںکہہ رہی تھی ’’۔۔۔درشکا ذرا ضبط سے کام لے!‘‘ میں دم بخود تھا۔ وہ دونوں بابا کے پاس بیٹھی کراہ رہی تھیں اور اسے چھو چھو کر آہ و بکا کرنے لگتی تھیں۔ لیکن وہ تھا کہ کچھ کہنے کے بدلے سرد مہری سے مسکرا رہا تھا۔ دیر تک وہ اسی طرح رینگتی رہیں۔ باربارماں کھڑی ہو ہو کر گرتی پڑتی اور نانی ایک بڑے سے گیند کی طرح یہاں وہاں پھدکتی رہی۔ یکایک ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی اور نانی بول اٹھی ’’شکرخدا! یہ تو لڑکا ہے! اور اس نے فوراً ایک موم بتی جگا دی۔ اس دوران میں مجھے نیند آگئی ہوگی کیونکہ بعد کی تفصیل مجھے یاد نہیں۔ دوسرا واقعہ جو میری یادداشت میں ہنوز محفوظ ہے، میں برسات سے بھیگے ہوئے ایک دن کسی قبرستان کے ایک سنسان کونے میں ہوں۔ میں گیلی مٹی کے تودے کے پاس کھڑا ہوا اس خندق میں جھانک رہا ہوں جس میں بابا کا تابوت ڈال دیا گیا تھا۔

("بچپن کی دھندلی یاد" میکسم گورکی کی آپ بیتی کا ایک باب)

گورکی کی آپ بیتی | میکسیم گورکی | ترجمہ: فضل الرحمن

RELATED BOOKS