INSAAN KA DAISH انسان کا دیش
PKR: 800/- 560/-
Author: HASAN MANZAR
Pages: 184
ISBN: 978-969-662-507-0
Categories: SHORT STORIES
Publisher: BOOK CORNER
’’... اب آپ کی کہانیاں پڑھ کر محسوس ہوا کہ اُن دوست نے آپ کی تعریف میں مبالغے کے بجائے کچھ کم گویائی سے کام لیا تھا۔‘‘
(فیض احمد فیض)
آپ کی کہانیوں کا مختلف مزاج اور لہجہ ہے۔ یہ انفرادیت نہ صرف موضوعات میں بلکہ اُسلوب اور ُبنت کاری میں بھی اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اس دُھند اور گھٹن میں آپ کی یہ کہانیاں جینے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
(رشید امجد)
آپ کی کتاب صہبا نے بھیجی ہے۔ آپ بہت میٹھے لگے ہیں، اس لیے گھونٹ گھونٹ پی رہا ہوں۔
(جوگندر پال)
اُردو افسانہ نگاری کے موجودہ تناظر میں حسن منظر کا فن بہت جاذبِ توجہ ہے لیکن ان کے افسانے پڑھ کر عموماً ایسا لگتا ہے جیسے کہیں ایک آنچ کی کمی رہ گئی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک آنچ کی کمی دراصل وہ ’’اَن کہی‘‘ رَمز ہے جو اِن کی کہانیوں کے بین السطور پنہاں ہوتی ہے اور جس کی بازیافت قاری کا حاصلِ مطالعہ۔
(ڈاکٹر محمد عمر میمن )
جب کوئی پاکستان سے جانے والا قرۃ العین حیدر صاحبہ سے ملتا ہے اور پوچھنے پر بتاتا ہے، حیدرآباد سندھ سے آیا ہے تو وہ کہتی ہیں، ’’حسن منظر صاحب کے شہر سے!‘‘
(جامی چانڈیو)
آج کے لکھنے والوں کو کہانی لکھنے کا فن آپ سے سیکھنا چاہیے۔ بےحد دلچسپ اور بےحد خوبصورت کہانیاں ہیں۔
(شارب ردولوی)
حسن منظر کی کہانیوں نے روزِ اوّل سے فکر کی متانت اور تکنیک کی پُرکار سادگی سے چونکا دیا تھا۔ حسن منظر افسانہ کے نحیف پیکر میں بڑے سنگین، کثیرالجہت اور آج کے چبھتے ہوئے موضوعات سمونے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی پورے معاشرتی تناظر میں۔ یہی نہیں وہ ان موضوعات کا احاطہ نفسیاتی اور فلسفیانہ دونوں سطحوں پر ایک ساتھ کرتے ہیں، اس کے لیے وہ کبھی فینٹسی کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ اکثر افسانوں میں ان کا تخلیقی رویہ افسانہ کے بجائے ناول کے تخلیقی عمل سے مشابہت رکھتا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ بڑے وسیع تناظر میں کہانی کا تار و پود تیار کرتے ہیں۔ معمولی لیکن معنی خیز جزئیات کو کہیں نظرانداز نہیں کرتے اور کئی طرح کے کردار ان کی گرفت میں رہتے ہیں جن کے تضاد اور ترکیب سے وہ افسانے میں دلچسپی کی لہریں پیدا کرتے ہیں۔ یہ تجربہ اپنی جگہ اہم سہی لیکن اس کے نتیجے میں ان کے اکثر افسانوں میں تعمیر اور تراش کی وہ دلکشی اور نکیلاپن نہیں آ پاتا جسے اکثر قارئین افسانے میں تلاش کرتے ہیں، تکنیک کے اعتبار سے وہ کہیں دستاویزی اور صحافتی انداز برتتے ہیں اور کہیں بیانیہ میں انسانی فطرت کے داخلی نگارخانوں کی سیر کراتے ہیں۔
(ڈاکٹر قمر رئیس)
حسن منظر کو دیکھنے دکھانے کا فن خوب آتا ہے۔ اس کا افسانہ بصارت اور بصیرت کی آمیزش سے پیدا ہوتا ہے۔ بصارت زندگی کے حسن و قبح کو کیمرے کی سچائی کے ساتھ دیکھتی ہے اور بصیرت ایکسرے کے تجزیاتی عمل سے اس کی تصدیق کرتی ہے۔ انسانی فطرت اور نفسیات کا کوئی پہلو اس کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا۔ اس کے افسانے ایک ایسے سیلانی کے سفر کی روداد سناتے ہیں جو اپنی فکر کا چراغ لے کر اس انسان کی تلاش میں نکلا ہے جو زندہ ہو اور دوسروں کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتا ہو۔ اس نے دُنیا کی خاک چھانی ہے اور ملک ملک کی خاک سے سونے کے ذرّے جمع کیے ہیں۔ یہی سنہری ذرّے اس کے افسانوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اُردو افسانے میں حسن منظر کی آواز مانوس اور جاندار ہونے کے ساتھ ساتھ نئی بھی ہے اور منفرد بھی۔ اس کے افسانے بیدار ی کے خواب ہیں جو آپ اپنی تعبیر ہوتے ہیں۔
(الیاس عشقی)
اگر آپ ان فہرستوں کو شک کی نظر سے دیکھیں جو ہمارے افسانے کے مُبصّر، کسی مخصوص ادبی گروہ کے زیرِاثر یا بعض رائج الوقت اسالیب سے مرعوب ہو کر بناتے ہیں تو حسن منظر کی افسانہ نگاری سے ربط قائم کرنا مشکل نہیں اور یہ رابطہ یقیناً ایک ایسے افسانہ نگار سے ہو گا جس کی واقعیت میں حساسیت کی گہری سطحیں بھی ہیں، جس کا مشاہداتی دائرہ وسیع ہے کہ اس دائرے میں مختلف خِطّوں کے کرداروں سے تعارف ہو سکتا ہے جس کے ہاں انسانی دُکھ سُکھ کی پہچان کے کئی رنگ ہیں اور جس کے افسانوی لہجے میں مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کی بولی کے ذائقے بھی ملتے ہیں اور جو اِنسانی مسائل اور اِنسانی رشتوں کو ’’خبر‘‘ کی سطح کے پار دیکھنے کا گُر بھی جانتا ہے۔
(ڈاکٹر سہیل احمد خان )
حسن منظر کے افسانے پڑھ کر سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ مدتوں بعد کسی افسانہ نگار نے سماجی زندگی کی حقیقی تصویرکشی بڑی جراَت کے ساتھ کی ہے۔ ان کے افسانوں نے نہ صرف اُردو افسانوی ادب میں معیاری تخلیقات کا اضافہ کیا ہے بلکہ مختصر افسانہ نگاری کا وہ اعتبار بھی بحال کیا ہے جو مصلحت کوشی اور منافقت کے ہاتھوں مجروح ہو چکا تھا۔ حسن منظر نے اپنے افسانوں میں جزیات نگاری کو بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے، جس سے ان کی کہانیوں میںدلچسپی کا عنصر بھی اُبھرا ہے اور معنویت بھی پیدا ہوئی ہے۔ اپنے افسانوں میں انھوں نے نہ تو محض روایت پسندی سے کام لیا ہے اور نہ روایت شکنی کو اپنایا ہے کیونکہ ان کے پیش نظر سب سے اہم مقصد اپنے موضوعات کو ان کی تمام جزیات و تفصیلات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پُراثر انداز میں اپنے قاری تک پہنچا کر اس کے شعور کی تشکیل کرنا ہے۔
(خالد وہاب)
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھوم پھر کر اپنی کہانیاں حاصل کرنے والے حسن منظر اُردو افسانے میں ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ موضوعات کے تنوع، بدلتے ہوئے منظرنامے، تنقیدی انداز کی حامل واقعیت اور لب و لہجے کا امتیاز ان کی وہ خصوصیات ہیں جو اُن کو دوسرے افسانہ نگارون سے الگ کر دیتی ہیں، جس کا نقش مصنّف کے معروضی نقطۂ نظر اور گہری انسان دوسری کی وجہ سے اور بھی نُمایاں ہو جاتا ہے۔
(ڈاکٹر آصف فرخی)