Jhootay Roop Kay Darshan (3rd Edition)

JHOOTAY ROOP KAY DARSHAN (3RD EDITION) جھوٹے روپ کے درشن (تیسرا ایڈیشن)

Inside the book
JHOOTAY ROOP KAY DARSHAN (3RD EDITION)

PKR:   999/- 699/-

Author: RAJA ANWAR
Pages: 160
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-481-3
Categories: LETTERS MEMOIRS
Publisher: BOOK CORNER

راجہ انور کو شاید آج کی سوشل میڈیا یا ٹک ٹاک ایج کی نئی نسل زیادہ نہیں جانتی۔ لیکن میں انھیں 1991ء سے ان کی کتاب ’’جھوٹے رُوپ کے درشن‘‘ کی وجہ سے ہی جانتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ملتان یونیورسٹی میں اکثر طالبِ علموں کی طرح میرے نزدیک بھی رومانٹک لیکن انقلابی کتاب یہی تھی۔ اگر رومانوی خط و کتابت کرنی ہے اور انقلابی بننا ہے تو راجہ انور کو پڑھیں۔ یہ کتاب میرے ہاتھ لگی اور میں نے بھی وہ رومانوی خطوط پڑھے اور خود کو راجہ انور نہیں بلکہ ’’راجہ اِندر‘‘ سمجھا۔
راجہ انور ساری عمر ایک سیاسی ورکر اور باغی رہے ہیں۔ انھوں نے خطرات سے بھرپور زندگی گزاری ہے۔ جلاوطنی بھگتی، موت کا سامنا کیا، افغانستان کی جیل میں رہے۔ اُن دنوں کی دردناک کہانی پر مشتمل کتاب ’’قبر کی آغوش‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ راجہ انور سے میری بھی چند ملاقاتیں رہی ہیں۔ وہ ایک شاندار کمپنی ہیں۔ بہترین گفتگو اور پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی کی روایتی محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ایک دن پتا کیا، وہ شہر میں نہ ملے۔ اِدھر اُدھر سے سن گن لی تو معلوم پڑا اُن کی طبیعت خراب ہوگئی تھی تو علاج کے لیے باہر تشریف لے گئے ہیں۔ چند دوستوں سے پوچھا تو بھی ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ پھر ایک لمبی جدائی۔ ایک دن شاہد صدیقی صاحب نے ان کےساتھ اپنی تصویر شیئر کی تو پتا چلا راجہ انور کی محفلیں پھر سے آباد ہوگئی ہیں۔ دل شاد ہوا۔
راجہ صاحب جتنی اچھی گفتگو اور تقریر کرسکتے ہیں اتنا ہی اچھا وہ لکھتے ہیں۔ بک کارنر جہلم نے اب راجہ انور کی کلاسک کتاب ’’جھوٹے رُوپ کے درشن‘‘ کا نیا ایڈیشن چھاپ کر نئی نسل کو ان سے متعارف کرانے کی خوبصورت کوشش کی ہے۔ اگر آپ اپنی گزری جوانی کے دنوں کے عشق کا ذائقہ محسوس کرنا چاہتے ہیں، کسی بھولی بسری حسینہ کی یادوں سے دل بہلانا چاہتے ہیں، محبت اور عشق کی سرد راکھ میں بچی کھچی چند چنگاریوں کو پھر سے سلگانا چاہتے ہیں، یونیورسٹی اور ہاسٹل لائف کے گزرے خوبصورت دنوں میں کچھ دیر کے لیے گم ہونا چاہتے ہیں اور خوبصورت نثر پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو اس سے بہتر کتاب کوئی نہیں ہو سکتی۔
راجہ انور کو صحت مند ہو کر اپنے وطن اور ادب کی دنیا میں دوبارہ واپسی مبارک ہو۔ بہت کم خوش قسمت ہوتے ہیں جو ایک دفعہ ڈوب جائیں تو دوبارہ اسی شان سے طلوع ہوں جیسے راجہ انور ہوئے ہیں۔
کیا آپ پوٹھوہار کے راجہ کا سواگت نہیں کریں گے؟
(رؤف کلاسرا)

’’سارے نابالغ ایک سائیڈ پر ہو جائیں اور کان پکڑ لیں!‘‘ ہال میں سراسیمگی پھیل گئی، یہ فقرہ ہم سب کے لیے عجیب تھا، ہمیں بلوغت کی دیواریں عبور کیے مدّت ہو چکی تھی لہٰذا ہم سامنے کھڑے ڈشکرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ڈشکرے نے شیطانی قہقہہ لگایا اور کہا، ’’جس جس نے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پڑھی ہوئی ہے وہ بالغ ہے اور جو ابھی تک اس سے محروم ہے وہ نابالغ ہے، لہٰذا جلدی فیصلہ کرو تم میں نابالغ کون ہے اور بالغ کون؟‘‘ ہم سب بلوغت کے اس ٹیسٹ سے ناواقف تھے، چنانچہ ہم نے چپ چاپ کان پکڑ لیے اور ڈشکرا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے ہماری تشریفوں کا معائنہ کرنے لگا۔
یہ واقعہ 1989ء میں پنجاب یونیورسٹی کے 9 نمبر ہاسٹل میں پیش آیاتھا۔ میں نے تازہ تازہ ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا، ہاسٹل گیا تو پہلی رات سینئر سٹوڈنٹس نے ہماری ریگنگ شروع کر دی۔ سینئرز کا لیڈر منڈی بہائوالدین کا کوئی چدھڑ تھا، شکل اور آواز سے بدمعاش لگتا تھا جبکہ ہم سب چھوٹے چھوٹے چوچے تھے۔ ڈشکرے چدھڑ کا بلوغت کا صرف ایک ہی معیار تھا جس سٹوڈنٹ نے کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پڑھ رکھی ہو وہ اس کی نظر میں بالغ تھا اور باقی نابالغ، ہال میں موجود تمام نئے طالبِ علم اس رات نابالغ نکلے، چنانچہ منڈی بہائوالدین، پھالیہ اور سرگودھا کے گوندل، رانجھے اور چدھڑ ساری رات ہماری تشریفوں پر طبلہ بجاتے رہے۔ میں نے دوسری صبح سب سے پہلے یونیورسٹی کی بک شاپ سے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ خریدی اور شام سے پہلے پہلے بالغ ہو گیا۔
یہ راجہ انور کے ساتھ میرا پہلا تعارف تھا، راجہ انور ایک طلسماتی شخصیت کا نام تھا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا، ذہین اور پڑھاکو تھے، خوب صورت بھی تھے اور بلاکے مقرر بھی تھے چنانچہ پوری یونیورسٹی میں مشہور ہو گئے۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی کنول نام کی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے، یہ دونوں ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے، محبت ختم ہو گئی لیکن خط بچ گئے۔ راجہ انور نے یہ خط ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیے اور اس کتاب نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔ ہمارے زمانے میں یہ کتاب طالبِ علموں کے غیرنصابی نصاب کا حصہ ہوتی تھی، یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی نوجوان پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے اور وہ یہ کتاب نہ پڑھے۔
راجہ انور آج کل پاکستان میں ہیں، میرے گھر کے قریب رہتے ہیں، میں ان سے کبھی کبھار ملتا رہتا ہوں۔ یہ بہت ہی شان دار انسان ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں وِژن، تجربہ اور احساس تینوں نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ میں نے پاکستان میں ان سے بہتر نثرنگار نہیں دیکھا، یہ لفظوں سے نہیں لکھتے، جذبات سے لکھتے ہیں اور قلم سے تحریر نہیں کرتے، شہنائی، بانسری اور ہارمونیم سے تحریر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں بے تحاشا روانی دے رکھی ہے۔ میرا دعویٰ ہے آپ بس ان کی کوئی تحریر شروع کرلیں، یہ آپ کو اس کے بعد دائیں بائیں نہیں دیکھنے دے گی۔
(جاوید چودھری)

RELATED BOOKS