Jise Raat Le Uri Hawa (5th Edition)

JISE RAAT LE URI HAWA (5TH EDITION) جسے رات لے اڑی ہوا

JISE RAAT LE URI HAWA (5TH EDITION)

PKR:   2,500/- 1,750/-

Author: MUHAMMAD IQBAL DIWAN
Binding: hardback
Pages: 464
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-645-9
Categories: NOVEL
Publisher: BOOK CORNER

ان قصوں میں کردار بھی ہیں، واقعات بھی، آپ بیتی بھی اور جگ بیتی بھی، جسمانی خواہشات سے متعلق تلذذ انگیزی بھی ہے اور روحانی کیفیات کا حال بھی، روح کو چھونے والے انفرادی المیے بھی اور طبقاتی تقسیم کی پیداکردہ معاشرے کی اجتماعی بےبسی کی تصویریں بھی، بھارتی فلموں میں دکھائی جانے والی انڈر ورلڈ سے ملتے جلتے کردار بھی اور اقدار کے نوحوں کے پہلو بہ پہلو رفعتِ افکار بھی۔ اس کے مختلف ابواب کے درمیان ایک مخصوص نوع پر تسلسل بھی ہے اور بے رابطگیٔ گفتار بھی، لیکن مجھے اس کتاب کی جس خوبی نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کی اپنے آپ کو پڑھوانے کی غیرمعمولی قوت اور صلاحیت ہے جو میرے نزدیک کسی بھی اچھی تحریر کا جزوِاعظم ہوتی ہے۔ اس کتاب کی ایک اور اہم اور قابلِ ذکر خوبی مصنف کی اپنے موضوع اور اس کے متعلقات پر ماہرانہ گرفت ہے کہ وہ ہر واقعے اور کردار کی جزئیات کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ چیزیں، کردار اور منظر آپس میں گڈمڈ نہیں ہوتے۔ کردارنگاری اور منظرنویسی میں انھیں ایک خاص ملکہ حاصل ہے، وہ ایک عمدہ سکرین پلے رائٹر اور باریک بین ڈائریکٹر کی طرح کسی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ تفصیل کی گنجائش نہیں لیکن یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو یقیناً ان کی ہنروری سے بہت لطف اندوز ہوں گے۔
(امجد اسلام امجد)

مجھے تو یہ کتاب ایک بےتکلف آزادہ رو اور آوارہ خرام ناول ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس خوش طبع کتاب کے بارے میں کوئی تنقیدی نکتہ اٹھانا زیادتی کی بات لگتی ہے مگر اس پر ناول ہونے کا اشتباہ یوں ہوتا ہے کہ مرکزی کردار کے حادثۂ پیدائش اور پھر انتقال کے مرحلے ہماری آنکھوں کے سامنے طے ہوتے ہیں۔ مرکزی کردار خود مصنف کا ہم زاد ہو نہ ہو، اس کی موت کے معاملے کو بھی اسی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے جو اس مصنف کا امتیاز ہے۔ ماڈل چاہے کیسا بھی ہو، محمد اقبال دیوان صاحب نے کتاب اپنی وضع کی لکھی ہے، نرالے ڈھب کی۔ ایسی خوش باش اور خوش اطوار کتاب کہ بےساختہ پڑھتے جائیے، جی خوش کرتے جائیے۔
(آصف فرّخی)

مجھے ’’جسے رات لے اُڑی ہوا‘‘ پڑھنے کے بعد مصنف کے مشاہدے سے خوف، ان کی معلومات اور مطالعے پر رشک آیا۔ کتاب بےحد دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب کرداروں کا ایک حسین مرقع ہے جو ہمارے اردگرد موجود ہونے کے باوجود نظروں سے اوجھل ہیں۔ سرکاری ملازم تو ہم بھی رہے مگر دیوان صاحب نے شریکِ کار ہونے کے دوران، انھیں کب دیکھا اور برتا، یہ بات ہمارے لیے باعثِ حیرانی ہے۔
(مہتاب اکبر راشدی)

ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہو گا کہ ہم نے فٹ بال کا کوئی عمدہ میچ ٹی وی پر چھوڑا ہو وہ بھی ورلڈکپ فٹ بال ٹورنامنٹ کے دنوں میں، ذرا مشکل سی بات ہے۔ یہ ظلم ہم پر دیوان صاحب کی کتاب نے کیا اور خوب کیا۔ کتاب ایک دفعہ شروع کی تو رکھنے کو دل نہ چاہا۔ اس کی معلومات، اس کے کردار، ان کی بُوقلمونیاں، ایک عجب نیرنگِ تماشا ہیں۔ اب تک یہ کتاب ہم نے تین دفعہ پڑھی ہے اور شناخت پریڈ جاری ہے۔
(عبیداللّٰہ بیگ)

دیوان صاحب نے جو انکشافات اس کتاب میں کیے ہیں وہ ہم جیسے کھوجیوں کے لیے بھی چونکا دینے والے اور دل چسپ ہیں۔ ان کی وقائع نگاری میں دسترس کو دیکھ کر ہم نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ وہ ایک بند گلی کی بند زبان اور بےلگام مغرور اور علم دشمن بیوروکریسی کے ممبر ہیں، اگر وہ بھولے بھٹکے سے کوچۂ صحافت کی طرف آ جاتے تو بہت سوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔
(نذیر لغاری)

RELATED BOOKS