JO MEIN NE DEKHA جو میں نے دیکھا
JO MEIN NE DEKHA جو میں نے دیکھا
جو میں نے دیکھا ‘‘ کے مصنف راؤ رشید اگرچہ پاکستان پولیس کے افسر تھے لیکن ان کی انفرادی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو اپنے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق بسر کیا اور ترقی کی وہ راہیں کھولیں جو پروفیشنل پولیس کے بیشتر خواص پر بھی بند رہتی ہیں۔ انہوں نے عملی زندگی کی ابتدا ایک لیکچرر کی حیثیت میں کی اور علی گڑھ میں1946ء میں تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت میں کام کیا لیکن ان کا سلسلہ وار عروج وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سپیشل سیکریٹری کی حیثیت میں ہوا ۔جب بھٹو صاحب، جنرل ضیا الحق کے فوجی شب خون میں معزول ہو کر پھانسی کے تختے تک پہنچ گئے تو راؤ رشید پر بھی سیاسی آلام اور سماجی صعوبتوں کے کئی اَدوار گزرے لیکن انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کسی قسم کی گواہی دینے سے انکار کر دیا اور جھوٹے مقدمات کی اساس پر ملازمت سے برطرف کر دیئے گئے۔ کتاب میں پاکستانی سیاست اور حکمرانی کی اندرونی کہانی انہوں نے اپنے مشاہدات سے مرتب کی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں ان شخصیات کا مطالعہ کیا ہے جو ملک کی تاریخ سے کھیل رہے تھے اور اس کا جغرافیہ بگاڑ رہے تھے۔ واقعاتی اورزمانی اعتبار سے یہ کتاب راؤ رشید کی یادداشتوں کا مجموعہ اور زندگی کے طویل دورانیے کا ایک نقش ہے لیکن در حقیقت انہوں نے جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، حنیف رامے، جنرل ضیا الحق، نواب صادق قریشی ، ایئر مارشل اصغر خان، مسعود محمود، افضل سعید اور متعدد دوسرے اہم کرداروں کے شخصی زاویوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کا تجزیہ اپنے قلم سے بیان کیا اورتاریخ کو ایک ایسی چشم دید شہادت فراہم کر دی جو دوسرے ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔