Agar Mujhe Qatal Kia Gaya

AGAR MUJHE QATAL KIA GAYA اگر مجھے قتل کیا گیا

Inside the book
AGAR MUJHE QATAL KIA GAYA

PKR:   800/- 560/-

Author: ZULFIQAR ALI BHUTTO
Translator: SATTAR TAHIR
Pages: 312
ISBN: 978-969-662-432-5
Categories: AUTOBIOGRAPHY MEMOIRS POLITICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER

بھٹو کی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا....‘‘ کا اُردو ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس ترجمے سے پہلے قارئین کرام میری چند ضروری معروضات کو ضرور پڑھ لیں۔
ایک عرصےسے اس کتاب کاشہرہ رہا ہے۔ یہ کتاب بھٹو مرحوم نے جیل کی اس کوٹھڑی میں لکھی جو اُن لوگوں کے لیےمخصوص کی ہوتی ہے جنھیں موت کی سزا دی جانی ہو۔ راولپنڈی جیل میں موت کی وہ کوٹھڑی جہاں شہید بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور یہ کتاب کاغذوں کو گھٹنوںپررکھ کر مکمل کی کہ انھیں وہاں لکھنے پڑھنےکی سہولتیں حاصل نہیں تھیں، مٹی اور اینٹوں سےبنی ہوئی وہ کوٹھڑی تو مارشل لا کے حکمران نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میںمسمار کروا دی۔ لیکن اس کوٹھڑی میں لکھی گئی یہ کتاب موت کی اس کوٹھڑی کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
اُردو اور غیرملکی زبانوں میں جیل میں لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد خاصی ہے اور ان میں سے بعض کو دائمی اہمیت اور شہرت بھی حاصل ہوئی ہے۔ حبسیات کے حوالےسے بھٹو مرحوم کی یہ کتاب ان زندہ رہنے والی کتابوں میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔
ایک عرصے تک اس کتاب کو دبایا گیا۔ پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت جنرل ضیاء الحق کے حکم سے ممنوع قراردی گئی۔ اسے شائع کرناجرم تھا۔ اسے فوٹو سٹیٹ اور دستی نقل کی صورت میں رکھنا، پڑھنا اور تقسیم کرنا ایسا جرم تھا جس کی سزا کوڑے اور جیل کی کوٹھڑی ہو سکتی تھی۔ ایک دو ایسے پریس جہاں اسے شائع کرنے کی کوشش کی گئی وہاں چھاپے پڑے۔ ان کے مالکوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پریس بھی ضبط کرلیے گئے۔
جنرل ضیا کےمارشل لا کے دور میں مرحوم بھٹو کی زندگی میں ان کی کردار کشی اور سپریم کورٹ میں ان کی اپیل کی سماعت کومتاثر کرنے کےلیے فوجی ٹولےنے یہ منصوبہ بنایا کہ فوجی حکومت کی طرف سےان کی اور ان کے حکومت کےخلاف وائٹ پیپر شائع کیے جائیں۔ یہ ایک گھنائونی چال تھی، جو جان لیوا دشمنی پر ہی مبنی نہیں تھی بلکہ اس کےذریعے سپریم کورٹ کے ججوں، پاکستان کے عوام اور عالمی رائےعامہ کو بھی گمراہ کرنامقصود تھا۔ بھٹو مرحوم نے مارشل لا حکومت کی طرف سے شائع، جاری اور تقسیم کیے جانے والے دو وائٹ پیپرز کاجواب اس کتاب میں دیا ہے۔ اس کےبعد تین جلدیں مزیدشائع ہوئیں، جن کا جواب بھٹو مرحوم نہ دے سکے کیونکہ ان کی زندگی کی ڈوری پھانسی کے پھندے کے ذریعے کاٹ دی گئی تھی۔
بھٹومرحوم نے مارشل لا حکومت کی طرف سے مرتب کردہ ان وائٹ پیپرز کی دو جلدوں کا جواب سپریم کورٹ میں پیش کرنےکے لیے لکھاتھا۔ سپریم کورٹ نے اس اہم دستاویز کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ایساکیوں ہوا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس کے مضمرات بھی اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ بہرحال مارشل لا حکومت کی پوری مشینری حرکت میں آگئی کہ بھٹو مرحوم کے اس جواب کو دبایا اور نیست و نابود کر دیا جائے۔ اپنی جگہ یہ طرزِ عمل کتنا گھنائونا ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ قدم قدم پراسلام کانام لینے والے اور قرآنی آیات پڑھنے والے جنرل ضیاء الحق کو یہ سیدھا سادہ انسانی، اخلاقی، مذہبی اور قانونی اصول یادنہ رہا کہ ملزم کو جواب دینے کا ہرطرح کاحق حاصل ہوتا ہے اور اسے اس حق سےمحروم کرنے والا دین و دُنیا دونوں لحاظ سےخود بہت بڑا مجرم اور گناہ گار ہوتا ہے۔
تمام تر پابندیوں کے باوجود بھٹو مرحوم کی اس آخری تحریر کے حصول کے لیے پاکستانی عوام جدوجہد کرتے اور متجسس رہے۔ فوٹو سٹیٹ کاپیوں کی صورت میں یہ خفیہ طورپر پڑھی جاتی رہی۔ یہ فوٹو سٹیٹ کاپیاں نامکمل اور ناقص تھیں۔ دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت میںاس کتاب کو موقع پرستوںاور تاجروںنےاپنے انداز میں استعمال کیا۔ اس اہم ترین تحریرکے ناقص اور نامکمل اردوترجمے ہوئے،انھیں بڑےناقص انداز میں شائع کیاگیا۔ انگریزی میںبھی اسے بہت سے ناشروں نے ادھورا ہی شائع کرکے پڑھنے والوں کے تجسس اور ذوق کامالی استحصال کیا۔
اس کتاب کی صورت میں پہلی بار بھٹو مرحوم کی اوریجنل تحریر کا مکمل اور پورا اُردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ترجمہ مستندکتاب سے کیا گیا ہے، جو بھٹو مرحوم کی ہی اپنی تحریر تھی، اس میںکوئی شبہ نہیں کیاجاسکتا۔جب بھٹو مرحوم نے یہ تحریر راولپنڈی جیل کی موت کی کوٹھڑی میں لکھی اور اب جب اس کا پہلا ترجمہ آپ تک پہنچ رہا ہے تو وقت کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی تیزی سے بہہ چکاہے۔
جنرل ضیاء الحق اپنے خوفناک انجام سے دوچار ہوچکا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی حکمرانی ہے اور بھٹو مرحوم کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کےہاتھوں میں ملک کی قیادت آچکی ہے۔یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ محترمہ بےنظیربھٹو کو پاکستان کی قیادت 1988ء میں ملی تواس وقت کاپاکستان 1970ء کے پاکستان سےبھی زیادہ شکستہ اور کمزور حالت میں ہے جب جناب بھٹو نےملک کی قیادت سنبھالی تھی۔ بہرحال یہ ایک عظیم چیلنج ہے، جس کاسامنا محترمہ بے نظیر بھٹو کو کرنا پڑ رہا ہے۔
بھٹو مرحوم کی اس آخری طویل اور مکمل تحریر کا ترجمہ بذاتِ خود ایک کربناک تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ قارئین بھی جب بھٹو مرحوم کی اس تحریرکوپڑھیں گے تو بہت کرب اور بے چینی محسوس کیے بغیر نہ رہ سکیںگے۔
’’اگرمجھے قتل کیا گیا....‘‘ ایک عہدِ تاریک کاآئینہ ہے۔ جس میںایک دور اپنی تمام تر بھیانک شبیہوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ بھٹو مرحوم یہ کتاب لکھتے ہوئے کس کرب سے گزرے ہوں گے۔ لکھنےپڑھنے کی سہولتوں کے فقدان کے باوجود انھوںنے یہ کتاب جس انداز میںلکھی ہے، یہ اپنی جگہ بڑا اہم کارنامہ ہے۔ بھٹو مرحوم اپنے ہی الفاظ کےمطابق ہمیشہ سے ایک شاعر اور انقلابی تھے۔ یہ کتاب، اس کا طرزِ اسلوب، اس کی نثر ثابت کرتے ہیں کہ بھٹو واقعی ایک شاعر اور انقلابی ہے۔ اس کتاب میں شعریت اور انقلاب کا ایک ایسا امتزاج ملتاہے جس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ طرز ِاسلوب کسی مصنّف کی اصل پہچان اور رُوح ہوتا ہے۔ اس میں انفرادیت حاصل کرنا سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ بھٹو مرحوم اس کتاب کی نثر اور طرزِ اسلوب کےحوالے سے اس کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
یہ کتاب پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین دور کا تجزیہ ہے۔ اس سازش کا قصہ ہے جس نےایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس میںہمیں بہت سےچہرے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چہرے جو اَب بساطِ ہستی سے غائب ہوچکے ہیں اور کچھ اب بھی موجود ہیں۔ اس کتاب میں ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں جن کا مطالعہ لرزا دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو ضیاء الحق کے دور میں اس لیے بڑی سختی سے دبایا گیا کہ بھٹو مرحوم نےجو انکشافات کیے تھے اس کا جواب نہیں دیاجاسکتاتھا۔
اس کتاب میں بھٹو کی نابغیت پوری شان سے جھلکتی ہے۔ ان کا علم، تجربہ، بےپناہ حافظہ اور بات کہنے کا اسلوب پورے عروج پر ملتا ہے۔ ایک قانون دان اور عظیم عوامی سیاست دان کی حیثیت سے بھی یہ کتاب ان کا روشن پہلو ہمارے سامنےلاتی ہے۔ یہ کتاب ان کی بےپناہ ذہانت اور ذکا وت، ملک کے عوام کے ساتھ دردمندی کو ظاہر کرتی ہے۔ حالات اور آنے والے دنوں کا جس انداز سے وہ تجزیہ کرتے ہیں، اس پر میں اس لیے کچھ نہیں کہوں گا کہ 1978ء میں لکھی جانے والی اس کتاب نے آج 1989ء تک بھٹو کے تجزیے اور بصیرت پر صداقت کی گئی مہریں ثبت کر دی ہیں۔ بھٹو مرحوم نے معروضیت کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اپنی حکومت کی خامیاں بڑی دلیری سے پیش کی ہیں۔ خوداحتسابی کا اظہار بےباکی سےملتا ہے اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے وہ ایک عظیم رہنما ہی نہیں بلکہ ایک سچّے محبّ وطن پاکستانی کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔یہ کتاب سچّے واقعات اور کرداروں کا دلچسپ لرزہ خیزاظہار کرتی ہے۔ جب بھٹو عوامی اور فلسفیانہ دانش کے امتزاج سےطنز کرتے ہیں توان کی تحریر کا حُسن نکھر کر، سامنے آتا ہے۔ بھٹو کی طنز بڑی طاقتور ہے۔ کیونکہ یہ طنز حقائق پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ ایک بڑے تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا ترجمہ کرتے وقت میں نے پوری کوشش کی ہے کہ بھٹو کا طرزِ اسلوب بھی جس حدتک ممکن ہو سکے اُردو میں منتقل کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ بعض ایسے امورجو بعد میں سامنے آئےان کی وضاحت کردی گئی ہے، تاکہ قاری اس کتاب کے آئینے میں پوری تصویر دیکھ سکے۔
اس میں مجھے کس حدتک کامیابی ہوئی ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے ہی کر سکیں گے!!

ستّار طاہر

لاہور
22 اپریل 1989ء

RELATED BOOKS