SAB RANG KEHANIYAN (VOL: 3) سب رنگ کہانیاں (والیم 3)
PKR: 1,495/-
Author: SHAKEEL ADIL ZADAH KA NIGARKHANA
Tag: HASAN RAZA GONDAL
Pages: 368
ISBN: 978-969-662-343-4
Categories: WORLD FICTION IN URDU SHORT STORIES TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
Reviews
zafar ali (Rawalpindi)
Kashif Iqbal
آج میں راولپنڈی سے جہلم بک کارنر گیا اور سب رنگ کہانیاں کی تیسری جلد حاصل کی۔جانے کا مقصد ان خوبصورت اور اعلی بصیرت کے حامل اشخاص سے ملاقات تھی۔جنہوں نے رضا گوندل صاحب کی محنت کو کتابی شکل دی۔شکریہ امر شاھداور گگن شاھد صاحب۔سب رنگ کا نام مجھے 13 سال کی عمر 1973 میں لے جاتا ھے۔
Hamid Mehmood (France)
دو دن قبل پرچہ لگا کہ "سب رنگ کہانیاں" کی تیسری جلد حسن رضا گوندل کی زنبیل سے برآمد ہو کر جلوے بکھیرنے کو تیار ہے۔ جسے گگن بھائی اور امر بھائی نے اس کے شایانِ شان عاشقانِ سب رنگ کے حضور پیش کیا ہے۔
آج شکیل عادل زادہ کے نگار خانہ سے برآمد ہونے والا نیا نقش موصول ہوا۔ "سب رنگ تماشا" دیکھا اور اسی کے اسیر ہو بیٹھے۔ سب رنگ کے "ذاتی صفحہ" کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
جلد دوم کے اختتام پر ہم یورپ کی فضاؤں میں ہائنس رِشے کے تخیل کے صید ہوئے اور وہیں کے ہو رہے۔ جلد سوم کی ابتداء میں ہم نے اڑان بھری اور مغرب کی فضاؤں کو اپنا مسکن کیا۔ جہاں سی بی گلفورڈ کا "دو شاخہ" ہمیں گھائل کرنے کو تیار تھا۔
اب سہ بارہ ہم رختِ سفر باندھتے ہیں اور دنیائے ادب کے دیگر جزائر کا احاطہ کرتے ہیں۔ آپ بھی سب رنگ کہانیاں پڑھیے اور زمین پر بسنے والے بڑے ذہنوں سے ہم کلام ہو جائیے۔
حامد محمود
ALi Adil Awan (Islamabad)
دو دن پہلے بک کارنر جہلم کی ویب سائٹ پر "سب رنگ کہانیاں ۳" کی اشاعت کے بارے میں پڑھا تو دل للچا اٹھا۔۔۔ دل نے مزید دہائی دی کہ اگر یہ کتاب کوئی دوست تحفہ کر دے تو سونے پر سہاگا ہو جائے۔۔۔ فوراً قرعہ اپنے شفیق بھائی اور دوست قیصر کے نام نکلا۔۔۔ کتاب آرڈر کرنے کے بعد قیصر کو بتایا کہ بھائی ایک قائد اعظم بابے کا ہزار والا نوٹ ڈھیلا کرو۔۔۔ انکار کیسے ہوتا؟ لہٰذہ آج کتاب آن پہنچی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح واٹر پروف پیکنگ میں۔۔۔ اس سے بھی مزے کی بات یہ کہ کتاب کی پیکنگ کھولی تو نئے کاغذ کی خوشبو نے مدہوش کر دیا۔۔۔ ایسا لگا گگن بھائی نے چھاپا خانے سے تازہ تازہ اور گرما گرم نکال کر پیک کر دی جیسے سیور فوڈز کا کرسپو فوئل پیپر میں پیک ہوتا ہے۔۔۔ مزہ آ گیا
Kausar Islam (Swabi)
کچھ دن پہلے سب رنگ کہانیاں جلد 3 کا اشتہار دیکھا تو بہت بے چین ہو گیا.... آج گگن شاہد بھائی کی بدولت مل گیا تو دل کو طمانیت کا احساس ہوا....
بک کارنر کی دیگر کتابوں کی طرح پرنٹ بائنڈنگ کاغذ لاجواب ہے.... دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے....
Tahir Ali Bandesha (Granada, Spain)
نَویاں سہیلیاں آن پُہنچیاں
خیالاں نوں اَکھّراں دِیاں جپھیاں پان لئی
لفظاں دی گرمائش پُہنچان لئی
حرفاں دے نِت نئے راز سُنان لئی
صَفحیاں دے لَمس عرفان لئی
علم و آگہی دے گیان لئی
سوچ نوں سوال دی سان چڑھان لئی
۱ - بازی گر نام لینے سے ہی فسوں ہو جائے
۲- سب رنگ کہانیاں شکیل عادل زادہ کے لفظوں کے ٹکسال میں ڈھلی ہوئی زبان و بیان کا شہہ کار اور حسن رضا گوندل کے عشق کا چمتکار
۳- داڑھی والا جو اپنی پہچان آپ ہے ۔ ساڈے حصے وچ بارہ تے چودہ دے وِچ کار والا ہندسہ آیا جیہڑا امریکا وِچ ممنوع اے 😉
۴- عرفان جاوید دروازے جس کی پہچان ، سرخاب و عجائب خانہ گلستان کافی ہاؤس فسان ( افسانے 😉)
۵- میرا داغستان نام ہی کافی ہے
۶- میری رانی میری کہانی : کریڈٹ گوز ٹو کلاسرا صاحب
۷- فارسی ادب : انور مسعود اور بل کارنر کے سنگھم سے وجود میں آنا والا فارسی کا گوشہ
۸- مجموعہ شمس الرحمن فاروقی زبان کے شناور کا وَرک
۹- ابتدائی تعلیم اگر مدرسے سے ہو اور اولین سالوں میں دل لگا کر پڑھا ہو تو گرامر سے لگاؤ ہو جانا عین فطرت ہے لہذا
مشہورِ زمانہ انگریزی گرامر
Wren & Martin
کا ہاتھ تلے ہونا ناگزیر ٹھہرتا ہے
جہلم بُک کارنر : جِن کا پیغام ہے
“ ہمارا خواب ، ہر ہاتھ میں کتاب “
Mohsin ALi Khan
نویں جماعت میں چُھٹی کے وقت میرا بستہ کسی دن وزن میں بہت ہلکا ہو جاتا اور کسی دن کافی بھاری بھرکم ہوتا۔ ہلکا اس دن جب بستہ میں نصاب کی کتابیں ہوتیں اور بھاری اُس دن جب گھر واپسی پر ناولوں، ڈائجسٹوں سے لدا ہوتا تھا۔ ایک پیارا دوست طاہر رانا جو عمران سیریز کا دلدادہ تھا، اپنے تئیں“ ایکس ٹو“ نامی مشہور زمانہ کردار بنا ہوا تھا۔ چوں کہ عام تاثر یہی تھا کہ طاہر نامی کردار ہی اصل میں“ ایکس ٹو“ ہے۔ اس لیے نام کی مناسبت سے میرا دوست طاہر رانا جب اپنے آپ کو ایکس ٹو کہلاتا تو میں بھی تائید کنندہ میں شامل ہوتا۔ میری دوستی برادری ازم بھی لیے ہوۓ تھی اس لیے اس کے توسط سے کافی رسائل و جرائد پڑھنے کو ملے جس میں زیادہ تعداد جاسوسی ڈائجسٹ کی تھی۔
ایک دن مشہور زمانہ ماہنامہ " کرکٹر“ کے کچھ رسالوں کے ساتھ ایک ڈائجسٹ کو طاہر رانا کے بستہ سے اپنے بستہ میں منتقل کرتے ہوۓ دل کی دھڑکن کچھ دیر کے لیے تیز ہو گئی۔ کوئی اور دوست نہ مانگ لے کے پیش نظر ہمیشہ رسائل، ناول وغیرہ عین اس وقت میں اپنے بستہ میں رکھتا جب چُھٹی کا وقت چند سیکنڈ کی دُوری پر ہوتا۔ اُس دن بھی جب تبادلہ کرتے ہوۓ ملی سیکنڈ کی نظر سے ایک ڈائجسٹ کے سرورق پر نظر پڑی تو دل گھر تک سارے راستے بلیوں اچھلتا رہا۔ عمر کا پندرہواں سال تھا، جوانی دستک دے رہی تھی اس لیے دل نے اپنی رفتار کو کم یا زیادہ کرنے کی زمہ داری مجھ سے چھین لی تھی۔ گھر پہنچ کر کھانا پانی بھول کر سب سے زیادہ فکر اس دن کے رسالوں کو اپنے کپڑوں والی الماری میں چھپانے کی تھی۔
رسالوں کو چھپاتے ہوۓ جب دوبارہ ایک نظر اس رنگ برنگ ڈائجسٹ پر ڈالی تو سرورق پر بنی تصویر نے دل کے تار چھیڑے تو سُر کانوں کی لَو تک سرخ رنگ بکھیرنا شروع ہو گئے۔ مجھے اور تو کچھ نہ سُوجھا، جلدی سے اُس رنگ برنگے ڈائجسٹ کے سرورق کو پھاڑ کے الگ کر لیا۔ کپڑے بدلے، پھاڑا ہوا سرورق اپنے گہرے نیلے رنگ کے ٹراؤزر کی داہنی جیب میں ڈال کر ایویں ادھر اُدھر چکر لگایا، پھر ایک بالٹی پانی کی بھر کر دوسری منزل پر موجود گملوں کو دینے کے بہانے اوپر پہنچا، جیب سے وہ سرورق نکالا جی بھر کر دیکھا۔
یہ سب رنگ ڈائجسٹ تھا۔ سرورق پر ایک ماہ جبیں، پری نازنیں، زُلف بچھاۓ، نکھری رنگت، قامت رعنا، نقش و نگار میں دِل ستاں اپنے جلوے بکھیر رہی تھی۔ مجھے لگا شاید خواتین کی کہانیوں والا شمارہ ہے۔ لیکن رات کو جب نصاب کی کتاب میں ڈائجسٹ رکھ کے پڑھنا شروع کیا تو بس ہر کہانی کو یہی سوچ کر پڑھتا گیا کہ یہ آخری باقی کل، لیکن جب شکیل عادل زادہ صاحب نے جادو بھرا جال پھینکا ہو تو کیسے ممکن کوئی اس سے بچ نکلے۔ ذاتی صفحہ ہی چُست، رواں، خوش نما زباں اندازی، برمحل، برجستہ لفظوں کی جُست سے بھرا ہوتا، کہانیاں تو بعد میں شروع ہوتی تھیں۔
زندگی کا ژانرا بھی کئی سمتیں لیے ہوۓ تھا۔ لیکن“ سب رنگ“ نے ایک آسانی کر دی تھی کہ اپنی کہانیوں میں دنیا بھر کا ذائقہ رکھا تھا، اسی وجہ سے ایک ہی ناول میں انسان کئی کرداروں سے مل آتا، مختلف شہروں سے ہوتا ہوا اپنا مزاج و لباس کردار کے مطابق ڈھالتا رہتا۔ بستر پر نیم دراز ہوۓ ہی آپ جاسوس بھی بنے ہوتے، پولیس آفیسر بھی، ایک منظم کارپوریٹ ادارہ کے ملازم بھی ہوتے اور کسی کہانی میں شکاری بھی بن جاتے۔ جب دنیا ہی آپ کے سرہانے رکھی ہو تو بس پھر یا آپ ہوتے یا تخیل ہوتا۔ جب چاہا پرواز کی۔ بلندی کی سیر کی۔ جہاں دل چاہا اُتر گئے۔ دل خوش ہوا تو نخلستان میں ڈیرے ڈال دئیے، اُداسی کے لیے صحراؤں میں چلتے اُن قافلوں کے پیچھے ہو لیے جو اپنی منزل کھو بیٹھے ہوں۔
آپ زندگی کے گورکھ دھندے سے نکل کر سب رنگ کے پہلے دو والیم اور تیسرے والیم کی تیس کہانیاں ضرور پڑھیں۔ سی بی گلفوڈ سے ایک آدمی کی کہانی سنتے ہیں جس نے ایک دن اپنے آپ سے سچ بولا، ابراہیم الوردانی کے ساتھ مصر کی صحرائی کہانی، کافکا کا ڈولچی سوار، پولک سے اس شخص کا پتہ کرتے جو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا، نیکا سے ایک گلی کا قصہ معلوم کرتے، کوئنٹن رینالڈ سے مرحوم دوست کی یاد میں جمع ہونے والے چار افراد کی بابت معلوم کرتے، میری ہاکنگ سے اس پری چہرہ کی کہانی جس میں ذہانت، فطانت، عشوہ اور سنگ دِلی، غرض ساری حشر سامانیاں اُس میں موجود تھیں۔ موپاساں کا نیا معاہدہ ہو یا پھررابرٹ لوئیس سے اس چشم دید گواہ کا حال جس نے ایک ایسا مجرم دیکھا جس کے جُرم میں کوئی نقص نہیں تھا۔ فریڈرک براؤن کا چُھو منتر، یا ایک ایسی عورت جسے ایک مرد نے سمجھ لیا تھا۔ جیک کی ایک معرکہ آرا کہانی، وانرلا کے نجی خطوط پر مشتمل داستان، بلیک ٹریور کی مومی تحریر، الیگزنڈر پوشکن کی اینٹ کی بیگم، ہیرس کا مے فروش، گلفوڈ کی بیری، جنیس موفیٹ کی زخمی آواز، ٹریوس کی نرم و نازک عورت کی داستان، سارا شہر جس کا مخالف ہو گیا تھا، جوناتھن کا افسانہ، ایڈون کا اندھیرے کا مذاق، نیلسن کا باسی آدمی، ہنگری کے بیرو کا شاہ کار، مارک ٹوئین کی فاختہ، فورسائتھ سے ایک منصوبہ ساز تاجر کا حال پوچھتے جس پر دولت مہربان ہوگئی تھی اور اسے کسی مہ جمال اور غزال چشم کی تلاش نہیں تھی۔ آرتھر کے قلم سے دوشیزہ کی سرگزشت، ترکوں کی کہانی جب وہ یورپ میں جنگ لڑ رہے تھے، ایچ ایچ منرو کی قمار باز دوشیزہ جب ایک رات وہ اپنی بساط سیزیادہ کھیل گئی، اور ان دشمنوں کی کہانی جو مدت سے ایک دوسرے کی تاک میں تھے اور ایک روز ان کا آمنا سامنا ہو جاتا۔ ایتماتوف کے دو شین۔
“ سب رنگ والیم ۳“ پڑھ کے اب والیم ۴ کا انتظار شروع کر چکا ہوں۔ بُک کارنر شو روم جہلم نے عمدگی کے ساتھ“ سب رنگ“ کی اشاعت کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ خوب صورت صفحات، پائیدار جِلد، جدید پرنٹنگ پریس سے نکل کر کتاب جب ہاتھ میں آتی ہے تو آپ بے اختیار گگن شاہد، اَمر شاہد کو داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دونوں بھائی مل کر بچپن کے سنہرے دن لوٹا رہے، زندگی کے سب رنگ واپس لا رہے۔
Muhammad Rafiq Zaheer (Sahiwal)
چند ماہ پہلے "سب رنگ کہانیاں" کے سلسلے کی تیسری جلد محترم حسن رضا گوندل کی جانب سے موصول ہوئی ۔ جو خاص طور "سمندر پار سے شاہ کار افسانوں کے اردو تراجم " پر مشتل ہے ۔ تیس کہانیوں پر مشتمل نہایت خوب صورت اور دیدہ زیب کتاب ۔چندبھولی ہوئی باتوں اور یادوں سے ایک آدھ کا تذکرہ۔۔۔ گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را۔
حسن رضا گوندل سےکم وبیش دوڈھائی دہائیوں سےایک ربط خاطرہے، یعنی دو چار برس کی بات نہیں،ایک چوتھائی صدی کا قصہ ہے۔یہ تعلق خاطر گورنمنٹ کالج لاہور کےزمانے سے ہے۔ تب سے اب تک اگرچہ بہت تسلسل سےملاقات نہ رہی لیکن اس کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکلتی رہی ۔اب کے جب تجدیدِ وفا کا امکاں نہ تھا کہ تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روز گار کے، توسب رنگ کہانیوں کی اشاعت نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دی۔انھوں نے کمال محبت اور التفات سےاب تک کی تینوں جلدیں ارسال کیں اوریہ تعلق ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ۔
ہمارے ہاں ادبی رسالوں اور ڈائجسٹوں کا ایک طومار رہا۔خاص طور ستر اور اسّی کی دہائی تو ان کا زریں دور تھا ۔جابجا اور بےشمار رسائل و جرائد نکلتے تھے اور ایک آدھ سال میں ہی موسمی پنیریوں کی طرح ختم ہو جاتے تھے ۔ اسی دوران میں "سب رنگ " کے نام سے ایک ڈائجسٹ کراچی سے جاری ہوا جس نے چند ہی برسوں میں اپنی اشاعت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔یہی ڈائجسٹ حسن رضا گوندل کا حسن انتخاب بنا۔
گورنمنٹ کالج لاہور اورخاص طور نیو ہاسٹل میں جس ایک رسالے کا تذکرہ رہا وہ "سب رنگ " تھا ۔رنگ رنگ ،سب رنگ ، اس کاعنوان بھی تھا اور موضو ع بھی ۔ حسن رضا کے لیے سب رنگ کے کسی ایک شمارے کا شائع ہونا اور مل جانا کسی " نعمت متبرکہ " سے کم نہیں تھا یا ابراہیم ذوقؔ کے اس مصرعے کے مصداق "بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے" ۔" سب رنگ " سے اس عشق کا میں عینی گواہ ہوں اور میں نےکئی بار اسے رنگے ہاتھوں بھی پکڑا ہے خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ اصل یہ کہ یہی وہ عشق تھا جو کام دہن سے اتر کر اس کے رگِ جاں میں سرایت کر گیا۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کب سے اور کہاں سے شروع ہوا، تاہم اب کے اس کی محبت کا محور ومرکز بن چکا تھا۔جہاں بھی گئے اس کے عشق کا مرکز یہی رہا۔ حتیٰ کہ زمستانی ہوا میں یہ آدابِ سحر خیزی بنا رہا۔جس کا حاصل یہ ہے کہ انھوں نے یورپ کی یخ بستہ ہواوں میں بھی اسے حرزِ جاں بنائے رکھا۔ بقول انیس"سمجھیں نہ حرزِ جان انھیں کیوں کر جوان و پیر"۔ اسی محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے کہ تین جلدیں زیورِطبع سےآراستہ ہوچکی ہیں ۔
سب رنگ سےمیرا ربط خاطر ایسا نہیں کہ اسے کسی شمار قطار میں رکھا جائے تاہم یادوں کے اس سلسلےکو کھنگالا جائے تو گوہرِنایاب تو نہیں کچھ کنکر پتھر ضرور ہاتھ لگیں گے۔ گاؤں کے پرائمری سکول کے زمانے سے یادوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے اس میں دو تین نقش ایسے ہیں جو بھلائے بھی نہیں بھولتے۔ یہ کاغذ کی کشتی اور بارش کا پانی نہیں بلکہ یہ بی۔بی۔سی اردو سروس ،ریڈیو کا رسالہ آہنگ اور ایک ناقابلِ فراموش رسالہ"سب رنگ" ہیں۔ یادوں کا یہ سلسلہ خاص طور پر جس حوالے سے محفوظ ہے اُس کا مرکز یہاں سے تیس پینتیس سال دور "سب رنگ" ہے۔ کچھ باتیں اوریادیں، زبان پر آئیں یا نہ آئیں بہر کیف وہ تالو سے چمٹی رہتی ہیں۔ ماہ وسال کی تخصیص سے بے نیاز اسے گھیرے رکھتی ہیں۔انہی میں سے ایک "سب رنگ " ہے ۔
" سب رنگ " کہانیوں کی موجودہ اشاعت دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام کے مصداق مجھے ماضی کی پگڈنڈیوں پر لے گئی ہے۔ یہ بات دل چسپ ہےکہ ان کہانیوں سے میرا ابتدائی تعارف ان کی قرات سے نہیں بلکہ ان کی سماعت سے ہے ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ برادر محترم کو سب رنگ پڑھنے کا ازحد شوق تھا اور گھر میں یہ رسالہ تواتر کے ساتھ آتا تھا ۔اور وہ بے تابی کے ساتھ اس کے منتظر رہتے تھے ۔میں کسی حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سب سے پہلے "سب رنگ " ان کے پاس ہی آتا ہوگا۔ اس حوالے سے جو کہانی میری سماعتوں میں اب تک بھی محفوظ ہے وہ "چور چکور"ہے۔ جس طریقے سے چکور وں کے شکار کا منصوبہ بنایا گیا اوریکے بعد دیگرے جس طریقے سے وہ گررہی تھیں اور جیسے مزے سے اس قصے کو سُنا اورسنایا گیا تھا وہ تاثر اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ویسے ہی موجود ہے ۔یہ دو شکاریوں کی کہانی ہے جو چکور کے شکار کرنے کا نہایت منفرد اور دل چسپ منصوبہ بناتے ہیں۔ چکوروں کے شکار کے لیے وہ انھیں نیند کی گولیاں کشمش میں بھر کے کھلا دیتے ہیں ۔ان کا طریقہ کار کامیاب رہا اور وہ دونوں سینکڑوں چکور اپنے ساتھ لے کر واپس گئے۔ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر مجرم اس دروان کسی نہ کسی غلطی کا ایسے مرتکب ہوتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ ایسا ہی ان دونوں شکاریوں کے ساتھ ہوا۔وہ دونوں شکاری دوا کی مقدار میں غلطی کر گئے اور چکوروں کی آنکھ کھل گئی۔ اس کہانی کے دو موڑ اب بھی حافظے کا حصہ ہیں ایک چکورں کا درختوں سے گرنا اور دوسرا آخرمیں ان کی آنکھ کھل جانا۔ یہ کہانی تب سےاب تک یادداشت کا حصہ ہے ۔
ماضی سے حال میں آتے تو ہیں جس طرح ایک زمانے میں سب رنگ کی پہچان اور اس کا تعارف سب رنگ ، کشورِ ہزار داستان' لفظوں اور لکیروں کے سراب' لرزتی چلمنوں کے قصّے' رازداں جھروکوں کے فسانے' شکیل عادل زادہ کا افسوں،رنگ رنگ سب رنگ اور شکیل عادل زادہ تھے ۔۔۔۔اور آج (اسے کوئی مبالغہ بھی کہے تو کہنے دیجیے) اس کی نشاۃ ثانیہ کی صورت میں اس کی پہچان ،شہرت اور تعارف کا اہم ترین حوالہ حسن رضا گوندل ہے۔انھوں نے جس محنت ، محبت اور عقیدت سے ان کوشائع کروانے کا منصوبہ بنایا۔ان تمام رسالوں کی ترتیب سے انھیں محفوظ کرنے تک کی ایک پوری داستانِ عشق ہے۔جو اس دورمیں ناقابلِ یقین بھی ہے اور فقید المثال بھی۔
سب رنگ کہانیوں کی اشاعت نے کتاب سے محبت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے ۔ جس کا کریڈٹ یقیناَ حسن رضا گوندل کو جاتا ہے ۔ میں کسی دلیل کے بغیر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کتنے ہی ایسے احباب ہوں گے جنھوں نے ایک عرصے کے بعد اگر کوئی کتاب خریدی ہوگی تو وہ “سب رنگ کہانیاں” ہوگی۔خاص طور پر آج اگرچہ کتاب سے محبت کرنے والے تو کم نہ ہوں گے لیکن اس کے پڑھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں ۔اس کی بظاہر وجہ بےترتیب مصروفیات اورسماجی رابطے کے بے شمار چینلز ہیں ۔جنہوں نے خلقِ خدا کو ایسے کام پر لگا دیا ہے کہ جس میں خدا کے ملنے کی صورت تو کجا وصالِ صنم بھی ممکن نہیں ۔جہاں کتابی چہرے ہمہ وقت دسترس میں ہوں گے وہاں کتاب کی کیا اہمیت!! لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں جس تس نے “سب رنگ کہانیاں” خریدی ہوگی __ پڑھی ہوگی ۔ کیوں کہ "عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا"۔
حسن رضا گوندل نے جس محبت اورعقیدت سے اسے شائع کیا اس میں ستائش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا۔۔۔لیکن جہاں تک ستائش کی بات ہے تو میں سمجھتا کہ اس میں کوئی کمی نہ رہی ہے ۔کم و بیش ایک سال کے دوران میں پاکستان کے ہر بڑے اخبار میں اگر کسی ایک کتاب کے بارے میں منتخب ادیبوں نے تواتر کے ساتھ مضامین اور کالم لکھے ہیں تویہ کتاب "سب رنگ کہانیاں" ہے۔جس سے اس کی پذیرائی اور شہرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس اشاعتِ نو سے" سب رنگ " کے چاہنے والے جہاں تہاں بھی موجود تھے کشاں کشاں کھنچے چلے آئے اور کتنے ہی اس کی زلفوں کے اسیر نکلے۔ حسن رضا گوندل کے ساتھ ساتھ بک کارنر جہلم بھی مبارکباد کا مستحق ہے جس نے کتاب کو خوبصورت اور دیدہ زیب طباعت سے آراستہ کیا ہے۔
Syeda Huma Sherazi
کہا جاتا ہے کہ جوانی کی محبت اپنا رنگ کسی نا کسی صورت میں ضرور ظاہر کرتی ہے اور اگر یہ محبت ادب اور ادبی متن سے ہو تو پھر ہم اُس محبت کو "سب رنگ کہانیاں" کا نام دے گے۔حسن رضا گوندل نے اپنی محبت کو اس انداز میں امر کیا کہ اب وہ اُن کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ایک عاشق کو اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی طلب ہو سکتی ہے کہ اُس کی محبوب شے کو اُس کے نام سے پہچانا جائے آج اس محبت کا تیسرا عملی وجود میرے ہاتھوں میں رقص کررہا ہے جس میں سمندر پار سے شاہ کار افسانوں کے کرادر اپنی اپنی کہانیاں آج بھی اُسی آب و تاب سے بیان کر رہیں ہیں۔۔
شکیل عادل زادہ کے اندر سے اٹھنے والا یہ جنون جب Hasan Raza Gondal سے ٹکراتا ہے تو پھر دوبارہ سے سب رنگ کا وجود ایک نئی شان کے ساتھ ادبی دنیا کے اُفق پر نمودار ہوتا ہے جس کا معیار موجودہ دور کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ ایک رول ماڈل کی حثیت اختیار کر جاتا ہے اس "سب رنگ کہانیاں" کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ سنجیدہ قاری آج بھی مقدار سے زیادہ معیار کو پسند کرنے والا ہے اور پھر یہ معیار صرف کہانی کی دنیا تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ اس کا خیال شکیل عادل زادہ کے نگار خانہ کے ہر ہر صفحہ پر رکھا جاتا ہے۔
کتاب موصول ہونے کے بعد میں کئی دن تک اس کی جمالیات میں کھوئی رہی سرورق پر بکھرے سب رنگ کے کئی وجود نہ صرف اپنی کہانی خود بیان کر رہے تھے بلکہ سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر کی تصوراتی دنیا کے کئی راز بیان کر رہے تھے سفید کھڑکی کے سامنے سب رنگ کے بکھرے وجود خود ایک کہانی کو جنم دے رہے ہیں
سرورق کی دنیا سے نکل کر جب کتاب کا سینہ چاک کیا تو سرمئی رنگ کی چمک میں سفید رنگ میں لکھا" سب رنگ ڈائجسٹ" اس دنیا میں آمد کی خبر دے رہا تھا جو کئی کرداروں کو اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔اور پھر اگلے صفحہ پر اس دنیا کو آباد کرنے والا انسان براجمان تھا مجھے ہر صفحہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس ہوا کے میں فن کی دوہری دنیا سے لُطف کشید کررہی ہوں جس طرز کا کاغذ اور پھر جس جمالیاتی انداز میں اُس پر الفاظ کی دنیا کو آباد کیا گیا ہے شاید اس سے پہلے اس طرح کا نمونہ میری نظر سے نہیں گزرا ہاں انگریزی کی چند کتابوں کو ضرور میں نے اس طرح پایا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بک کارنر جہلم اور جناب Gagan Shahid اور Amar Shahid کے جمالیاتی ذوق کی عملی تصویر ہے
"آشفتگانِ سب رنگ" کے نام سے شروع ہونے والی یہ داستان در داستان کی دنیا شکیل عادل زادہ کہ "سب رنگ تماشا" سے ہوتی ہوئی مجیب الرحمن شامی کے الفاظ سے رنگوں کو چنتی ہوئی حسن رضا گوندل کی "رنگ رنگ ،سب رنگ " پر امر ہوئی اور اُس کے بعد ایک نئی افسانوی دنیا آباد ہوگئی جس کا آغاز "سی بی گلفورڈ" کی ترجمہ شدہ کہانی دوشاخہ سے ہوا جس کو انور خواجہ نے ترجمہ کیا اور جس کو پڑھنے کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ میرے سامنے ترجمہ شدہ متن ہے اس سفر کا اختتام "دوشین" پر ہوا جو کہ "چنگیز ایتماتوف" کا افسانہ جس کو حسن ہاشمی نے ترجمہ کیا ہے
اس سارے سفر میں ایک عنصر غالب رہا اور وہ دلچسپی کا عنصر تھا اس طلسمی صورت حال میں نہ جانے کتنے چائے کے کپ ٹھنڈے ہوگئے اور میں چائے کی کمی کو بھی کہانی سے پورا کرتی رہی نہ جانے کتنے لوگوں کو صرف اس لیے وقت پر میسر نہ ہوئی کے میں تو کسی اور دنیا کے کرادوں کے ساتھ زندگی کے سب رنگ محسوس کررہی تھی۔
نہ جانے کتنےمزےدار کھانوں سے محروم ہو گئی کیونکہ یہ دنیا مجھے جکڑے ہوئے تھی
اور آخر کار آج اسے اپنے اندر مکمل اتار کر خود کو اس محبت میں گرفتار محسوس کررہی ہوں جس میں ہر "سب رنگ" کا قاری گرفتار ہوتا ہے اور یہ وہ واحد محبت ہے جو سب کی سانجھی ہے
شکریہ حسن رضا گوندل صاحب آپ نے ہم تک اس منفرد دنیا کو اس خوبصورت انداز میں پہنچایا کے اس کے اظہار کے لیے شاید الفاظ میں وہ طاقت نہیں ۔۔۔۔
سلامت رہیں آپ کے انتخاب نے آپ کے کہانی سے جڑے فہم کا جس انداز میں اظہار کیا اس کے بیان ایک اور تحریر متقاضی ہے
Mutruba Sheikh (Karachi)
فکشن میں مرکزی خیال اور انسانوں کی کہانیاں
کہانی، افسانے ، داستان یا قصے میں بھی ایک مرکزی خیال ہوتا ہے۔ جو ایک نکتے پر پہنچ کر حقیقت سے جڑ جاتا ہے، یہ نکتہ آغاز، انجام یا کہانی کے اندر ہی کبھی پوشیدہ ہوتا ہے اور کبھی واضح ہوتا ہے۔
جب بین الاقوامی فکشن نگاروں کی تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے، تو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں، انکے معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کو لکھنے کے بعد ادیبوں ،مصنفوں اور ابلاغ کے نمائندوں نے سماج میں عورت اور مرد کے رشتے کے مابین لکھنا اور عملی طور پر کام کرنا شروع کر دیا، اور یہ سلسلہ مسلسل جاری و ساری ہے۔ یہ لکھت صرف رومانویت پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ سماج میں دونوں صنفوں کے کردار، صنفی امتیاز، مردانہ صنفی جبریت اور عورتوں کے معاش کے حوالے سے ہے، دنیا بھر میں مختلف تحاریک بھی انہی موضوعات کے خلاصے کے طور پر جاری ہیں، کچھ تحاریک تو تکمیل پا چکی ہیں اور کچھ کشمکش و تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
ہمارے یہاں بد قسمتی سے ایسا کچھ لکھا گیا تو ریاستی و سماجی رویوں کے باعث قبول عام نہ پا سکا۔
سوشل میڈیا کی بدولت شعور تو آ رہا ہے لیکن بہت آہستہ، کہ مختلف مزاحمتی تحاریک بھی جاری و ساری ہیں۔
حتی کہ ہمارا پاپولر فکشن بھی مذہبی و ریاستی بیانیئے پر مشتمل ہے،
جب کہ پاپولر فکشن کے ذریعے تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
کائنات کی فطرت میں تبدیلی ہے، انسان تبدیلی کو پسند کرتا ہے، اور فطرت کا مفعول ہونے کے ناطے عادی ہو جاتا ہے۔
مزاحمت آہستہ آہستہ دم توڑ دیتی ہے، جیسے کہ جنگ و جدل سے اب لوگ گھبرانے لگ گئے ہیں، سماج میں موجود ممنوعہ موضاعات پر بات کرنے لگے ہیں،
لیکن ہمارے سماج میں عورت اور مرد کے تعلقات کی بابت ابھی بھی لوگ کنفیوژ ہیں، اسکی وجہ یہی ہے کہ ان موضوعات پر کھل کر لکھا نہیں گیا، جو لکھتے ہیں لوگ ان سے بد گمان ہونے لگتے ہیں کہ شاید یہ سماجی روایات واقدار کو توڑنے کے درپے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے، مصنف صرف نشاندہی کرتا ہے، سماج میں جس فرد واحد کو روایت شکنی کرنی ہوتی ہے وہ کر دیتا ہے۔
بین الاقوامی فکشن میں ادیبوں نے کہانیوں کے ذریعے عوام میں فکری شعور کی وہ سطح بلند کی جس کے ذریعے عوام نے تبدیلی کو قبول کرنا سیکھا، اور پھر سماجی رویوں میں بہتری آئی۔
پچھلے کئ ماہ سے " سب رنگ کہانیاں " زیر مطالعہ ہیں۔
سب رنگ کہانیاں انیس سو ستر کی دہائی میں شائع ہونے والے رنگ ڈائجسٹ سے منتخب کی گئی ہیں،
یہ ڈائجسٹ پچاس سال تک شائع ہوتا رہا، اور لاکھوں قارئین کو اپنا مداح بناتا گیا، جس میں میرے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں، جو اوائل عمری میں اس ڈائجسٹ کے قاری تھے، اور عالمی فکشن کو پڑھتے اور سمجھتے تھے۔
اور اب ہم سب رنگ کہانیاں کےمطالعے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس وقت سب رنگ کہانیاں کی تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ اور ان کہانیوں کو سب رنگ ڈائجسٹ کے ایک مداح بلکہ عاشق " حسن رضا گوندل "
نے دوبارہ مرتب کیا ہے، ہر حصے میں تیس تیس کہانیاں ہیں۔ یعنی ہمارے پاس عالمی فکشن سے نوے بہترین کہانیاں جمع ہو چکی ہیں اور میں نے تینوں حصوں سے دو دو کہانیاں سنائی ہیں۔
حصہ سوم سے جو دو کہانیاں اپنے چینل پر سنائی ہیں، دونوں عورت اور مرد کے رشتے، دلچسپی اور باہمی رضامندی کے متعلق ہیں۔
ایک کہانی کا عنوان " شرط" ہے۔
ڈھائی صفحات کی کہانی نے سماج کے تین پہلو بیان کئے ہیں۔ عورت ، اس پر جبر۔ پھر جبر سے نجات کے لئے ریاست اور قانون۔
دوسری کہانی " گوشہ"
رومان، رومان کے لئے سازگار حالات، رشتہ ازدواج، باہمی تعاون و انڈراسٹینڈنگ، ازدواجی تعلقات میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کی گنجائش نہ ہونا، بلکہ خوشگوار ساتھ کے لئے زوجین کا ایک دوسرے پر اعتماد بیان کرتی ہے۔
دونوں کہانیوں کو فکشن کے اوج پر لا کے حقیقی زندگی کے خاص نکات پر پہنچایا گیا ہے۔
دونوں کہانیاں اپنے چینل پر سنا دی ہیں۔ اور لنکس کمنٹس میں موجود ہیں۔
سنیئے اور سوچیئے کہ ہم اور ہمارے دوست کیوں عالمی ادب و فکشن پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
سب رنگ کے بعد باری ہے جاپانی ادب کی کہانیوں کی۔ چینل سبسکرائب کر لیجئے تا کہ جاپانی ادب سے محروم نہ رہ جائیں۔
مطربہ شیخ