HIMALAYA SE BULAND SAZISH ہمالیہ سے بلند سازش
PKR: 995/- 597/-
Author: IFTIKHAR AZAM
Translator: MAHBOOB KAASHMIRI
Pages: 344
ISBN: 978-969-662-413-4
Categories: SCIENCE WORLD FICTION IN URDU NOVEL TRANSLATIONS SCIENCE FICTION
Publisher: BOOK CORNER
کچھ ناول کے بارے میں:
افتخار اعظم نے اس ناول میں بڑی خوب صورتی سے مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر پیش آنے والی صورتِ حال کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے۔ مستقبل قریب میں جو نئی صورتِ حال پیدا ہونے جا رہی ہے اور انسان خلا کی تسخیر اور وہاں بستیاں بسانے کے لیے کوشاں ہے، اس صورتِ حال کا بہت دلچسپ پیرائے میں احاطہ کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جلد ہم آبی وسائل اور دیگر قیمتی معدنیات اور دھاتوں کے حصول کے لیے ہونے والی جنگوں کو دیکھ سکیں۔ افتخار اعظم نے مختلف کرداروں اور مقامات کا استعمال کرتے ہوئے مسحور کن فضا بنائی ہے۔ جدید سائنسی علوم خصوصاً جغرافیائی اہمیت اور خلائی مشنز کے بارے میں بیش بہا معلومات کو ناول کی صورت میں سامنے لایا گیا ہے۔ مصنف حقیقی زندگی سے قریب تر کردار اور فکشن کا استعمال کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہو پائے گا۔ میں اور میری طرح کے دوسرے سائنسی علوم کے ماہرین یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ بہت جلد ممکن ہے اور سائنسی طور پر یہ قابلِ عمل ہے۔ فزکس کے قوانین کی روشنی میں بلند ترین مقام سے خلائی دباؤ اور کششِ ثقل کے مابین تعلق اور اس کے درست استعمال کے لیے جدید ترین راکٹ لانچ کرنا اور خلاؤں کی تسخیر عین ممکن ہے۔ امید ہے کہ اس ناول کو پڑھ کر آپ حیرت سے دوچار ہوتےہوئے محظوظ ہوں گے اور اس کوشش کو ضرور سراہیں گے۔
کچھ مصنف کے بارے میں:
افتخار اعظم برمنگھم (انگلستان) میں پیدا ہوئے۔ والدین تلاشِ معاش کے سلسلے میں ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ آئے اور یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ ایک بڑے خاندان کا حصہ ہونے کی وجہ سے بچپن غربت اور کسمپرسی کی حالت میں گزرا۔ دنیا کا سفر ایک خواب تھا، اللہ نے فضل کیا اور اس خواب کی تعبیر دیکھی اور نگر نگر پھرے۔ فرصت کے اوقات میں ہمیشہ مقامی اور عالمی حالات و واقعات پر توجہ دیتے رہے، خاص طور پر انگلستان کے چینل فور کی شام کی خبریں ان کی توجہ کا مرکز رہیں۔ مستقبل میں جھانکنے کا شوق انھیں ہمیشہ سے تھا، اس لیے خبروں سے مستقبل کی پیش بندی پر غوروفکر کرتے۔ بیس برس تک تعمیرات اور ریلوے کے محکمہ جات کے لیے پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے رہے۔ فنِ تعمیر اور عمارتوں کے نمونوں کے عمدہ پہلوؤں کا ذوق وشوق ان کے اندر رچ بس گیا۔ حال ہی میں لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہوئی تو تحقیقی صحافت کا انتخاب کیا۔ وہ ایک ایسا لکھاری بننا چاہتے ہیں جو تحقیقی صحافت کو قارئین کے لیے دلچسپ بنادے۔
کچھ مترجم کے بارے میں:
ڈاکٹر محبوب کاشمیری پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں لیکن ادبی حلقوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ یکم فروری 1973ء کو صوبہ سندھ کے شہر کنری میں پیدا ہوئے۔ مقامی سکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد شاہ عبداللطیف بھٹائی کالج میرپور خاص سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔ سکول کے زمانے ہی سے تخلیقی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔ نصاب سے زیادہ دوسرے مطالعے کا جنون تھا۔ شہر کی لائبریری میں کثرت سے نشست اور مطالعہ محبوب مشغلہ تھا۔ پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں پروفیشنل تعلیم کا آغاز ہوا۔ 1995ء میں دورانِ تعلیم شعبہ پنجابی کالج میگزین ’’پرواز‘‘ میں بطور ایڈیٹر اور 1998ء میں چیف ایڈیٹر کی ذمہ داری نبھائی اور اپنی علمی اور ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اردو کے علاوہ پنجابی اور سندھی کے بھی اچھے لکھاری ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’’عکسِ آب‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ شاعری سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ترجمے میں بھی نام بنایا۔ فارسی شعر و ادب سے دلچسپی نے شیخ فرید الدین عطاؔر کی عظیم مثنوی ’’منطق الطیر ‘‘ پر کام کرنے کی طرف مائل کیا اور پہلی مرتبہ فارسی متن کے ساتھ مکمل نثری ترجمہ منظرِ عام پر آیا۔ آج کل میرپور (آزاد کشمیر) کے نیوسٹی ٹیچنگ ہسپتال میں بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔