SHIKAST E ARZU شکست آرزو
PKR: 500/-
Author: PROF. DR. SYED SAJJAD HUSSAIN
Categories: HISTORY PAKISTANIAT FALL OF DHAKA / EAST PAKISTAN
Publisher: ISLAMIC RESEARCH ACADEMY
پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین سابق وائس چانسلر ڈھاکہ یونیورسٹی کی کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ کو جب میں نے ختم کیا تو مجھے علامہ اقبالؒ اور مولانا حالیؒ یاد آئے جو ملّتِ مسلمہ کو اس کے ماضی کی عظمت یاد دلاتے رہے۔ جس عروج و اقبال کی مسندِ عالی سے گرنے میں امت ِ آخر نے ماضی کی روایات میں کھوکر باہمی اتحاد و الفت کے رشتہ کو علاقائی، لسانی اور ثقافتی تضادات کی مقراض سے کاٹ ڈالا تو نسیم حجازیؒ کا ناول ’’آخری چٹان‘‘ یاد آیا، جس میں مختلف قوموں میں تقسیم لوگوں نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی وحدت کو فرقہ فرقہ بن جانے والوں کی سیسہ کاری نے چھلنی کیا تو وقت کا استعمار نسلِ چنگیزی کی صورت میں صاعقہِ فطرت بن کر اہلِ اسلام کی سطوت اور سلطنت کو بھسم کرگیا۔
خوئے غلامی برصغیر کے مسلمانوں میںاتنی شدت سے واضح ہوچکی تھی کہ جب قوم کو دردمند شاعر مشرقؒ نے یہاں غلبہ اسلام کے لیے مسلم کی خودی کو بیدار کرنے کے لیے انہیں وَہن (مال دنیا سے رغبت اور موت سے غافل) سے نکالا اورایک الگ وطن کا مطالبہ بن گیا تو سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ’’اے طالبان مملکتِ اسلامیہ! آنکھیں کھولو اور سمجھو ’’کہ اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘؟ اس تنبیہ کو لادین اور مغرب پرست قیادت نے کچھ ’’علمائ‘‘ کو ساتھ ملاکر انہیں قیام پاکستان کا مخالف باور کرانے کے لیے پروپیگنڈہ کیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد جدید ’’اسلامی ‘‘ ریاست قائد اعظمؒ کے ’’کھوٹے سکوں‘‘ کی گرفت میں آگئی اور ہوسِ غنیمت نے ان کو اس راہ پر ڈال دیا جس راہ پر انہیں غنیم (انگریز اور ہندو) ڈالنا چاہتا تھا۔ قائداعظمؒ نے مارچ 1948ء میں اپنے ڈھاکہ کے دورے میں نوجوانوں، علمائ، عمائدینِ قوم کو وحدت اور روشن مستقبل کا پیغام دیا۔ اور قومی ایکتا کے لیے اردو زبان کو وسیلہ بنانے کا مشورہ دیا تو مخالفینِ قیام پاکستان نے ہندوئوں کی شہ پر کہنا شروع کیا ’’ساری اہم سرکاری نوکریاں انہیں مل جائیں گی جن کی مادری زبان اردو ہے اور بنگالی مسلمان آہستہ آہستہ اہم عہدوں سے محروم ہوجائیں گے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ بڑی تیزی سے اس اہم پروپیگنڈے کا شکار ہورہے تھے۔‘‘ (ص۲۲۶) حیرت ہے کہ مشرقی پاکستان میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت ان چار طلبہ کو بھی گرفت میں لینے کا حوصلہ نہ کرسکی جنہوں نے قائد اعظمؒ کو جلسہ عام میں بے وقار کرنے کی جسارت کی تھی۔ (ص ۲۲۷)حیف ہے مشرقی پاکستان میں مسلم لیگی اکابرین کے افلاسِ فکر و نظر پر وہ بنگالی بولنے والے اس بکے ہوئے عنصر کو یہ تک یاد نہ دلاسکے کہ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال کا سبب کیا تھا اور کون لوگ تھے جو بنگال کے مسلمانوں کو ان کا جائز حق ملنے کی اس مدہوم سی امید کو بھی برداشت نہ کرکے ۱۹۱۱ء میں اس تقسیم کو منسوخ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دلیل سے یہ مسلم لیگی قائدین ۱۹۴۷ء میں بنگال کی تقسیم پر ہندوئوں کے احتجاج پر بھی آنکھیں کھولنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ص(۲۱۲) ہندو قیادت ہی نہیں وہاں کے اساتذہ، وکلاء اور ’’بودی والے‘‘ جملہ دانش اور اب لسانی تغاوت کا ہتھیار لے کر میدان میں آگئے۔ نظریہ پاکستان کے رموز سے ناآشنا رفقائے قائد اعظمؒ کو یہ تک ادراک نہ ہوسکاکہ ’’لسانی بنیاد پر بننے والی قومیتیں مرکز گریز رُجحانات کی وجہ سے مذہبی قومیت کے مقابلے میں زیادہ انتشار کا سبب بن سکتی ہیں‘‘( ص۲۱۳)حیرت کی بات ہے کہ جلد ہی ملک کے دونوں خطوں کو دو لسانی مطالبے کی گونج سننا پڑی۔ اس صداخیزی کے مؤذنوں میں بنگالی دانش ور ابو رُشد متین الدین بھی شامل تھے۔ حالانکہ انہیں یہ تک سمجھ نہ آئی کہ اگر پاکستان معرضِ وجود میں نہ آتا تو سارے برصغیر کانگریس ہندی کا واحد سرکاری زبان بنانے جارہی تھی۔( ص۲۱۵)
ایک مسلمان جو بنگلہ کو مادری زبان کے طور پر بولتا تھا یہ سمجھ گیا۔ یہ بات انہیں ۱۹۳۵ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کی خودنوشت کی اشاعت سے بھی معلوم ہوئی کہ برصغیر کا مسلمان اپنے ماضی کے کارناموں کی حرارت سے آمادہ انقلاب و فریفتہ جہاد رہتا ہے۔ اس لیے اُسے عربی و فارسی سے بیگانہ بنانا ضروری ہے۔ دورِ حاضر میں یہ کام اردو زبان سے لیا جارہا ہے۔ اس لیے قیام پاکستان کے بعد نسلِ مسلم کو عربی و فارسی سے ہی نہیں اردو سے بھی لاتعلق کرلینا چاہیے۔یوں مشرقی پاکستان کی قوت، تحفظ اور ترقی کا راز بنگلہ زبان سے فریفتگی کو قراردیا گیا۔حیف ہے موجودہ پاکستان کے تمام مرکزی اور صوبائی حکمرانوں کی عقل پر جو آج یہاں بھی اردو زبان سے بیگانگی کو زینہِ عروج خوش حالی بتانے پر ایمان لے آئے ہیں؟ اس اردو دشمنی کے سومنات کو بابائے اُردو، مولانا صلاح الدین اور اب ڈاکٹر پروفیسر شریف نظامی کی نحیف آواز کیا ڈھائے گی! ’’شکستِ آرزو‘‘ میں مصنف نے بیورو کریسی کے کردار کا بھیانک منظر بھی خونِ چشمِ گریاں سے منقش کیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں سیکریٹریٹ کے غیر بنگالی افسروں کی رعونت نے بھی جلتی پر تیل ڈالا۔ یہ مغربی پاکستان کے بارے میں انتہائی غلط جذبات پروان چڑھانے کا باعث بنے تھے۔ اسی دوران ۱۲ فروری ۱۹۵۲ء کو مرنے والے چار طلبہ نے وزیر اعلیٰ نورالامین اور اس کی بیوروکریسی کو ’’پاکستان کے خلاف سازش کا مواد جمع‘‘کرنے والوں کو یہ سونے کی کان ہاتھ میں آنے کا ادراک نہ ہوسکا۔ اس حادثہ نے پاکستان کے وجود کی ’’نشان نفرت‘‘ بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی یاد کا مظہر شہید مینار بنگلہ دیش میں ’’مینار پاکستان۔ لاہور کا نقشِ ثانی بن گیا ہے۔ حیرت و ملال ہوتا ہے جب لسانی تحریک کے سرگرم لوگوں کو جو ۲۱ فروری ۱۹۵۲ء کا ہنگامہ کھڑا کرنے میں پیش پیش تھے۔ انتظامی اور تعلیمی شعبوں میں اعلیٰ عہدے دے کر نوازا جانے لگا۔ ’’مسٹر اے کے ایم احسان ان چار طلبہ میں سے ایک تھے جنہوں نے مارچ ۱۹۴۸ء میں جلسہ عام میں قائد اعظمؒ کی توہین کی تھی وہ سرکاری منصب پاکر اتنی ترقی کرگئے کہ ۱۹۷۰ء میں یحییٰ خان نے انہیں وفاقی سیکریٹری مقرر کیا۔( ص۲۳۶)۔ یہی عہدہ اُس مسٹر رب کو ملا کہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی جس کا طرۂ گفتار تھا۔
اسی بیوروکریسی کے ہاتھوں صدر ایوب بھی یرغمال بن چکے تھے۔ ان میں دونام آج بھی بڑے محترم شمار ہوتے ہیں۔ یعنی الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب۔ ایک افسر منیر چودھری کی وساطت سے کمیونسٹوں کو ایوان ہائے حکومت میں رسائی حاصل ہوئی۔ کیا صرف آخری عمر میں سید مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کے چند حصوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ان کے اس کردار کی تلافی کرسکے گا جب کہ نظریہ پاکستان یا اسلام سے ان کی وابستگی کا کوئی ثبوت مشرقی پاکستان سے دکھایا نہیں جاسکتا۔ بھلے وہ نفیس طبع اور باصلاحیت ہوں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر تعیناتی کے ابتدائی دنوں میں وہ رسیائے شباب کی حیثیت سے بڑا نام کماچکے تھے۔(ص۲۳۷)۔ جب وہ ان اوصاف کی بدولت بڑے افسر بنے وہاں ان کے یاروں کے مزے آگئے۔ پریس ٹرسٹ آف پاکستان کے تحت ڈھاکہ سے بنگالی روزنامہ ’’دینک پاکستان‘‘ کا اجراء ہوا تو اس میں چُن چُن کر سرخوں کو بھرتی کیا گیا۔ اس اخبار میں بنگالی رپورٹروں نے زہر بھردیا تھا۔ ’’جھوٹ بول کر فوجی بازو کے ظلم اور استحصال کی کہانیاں سنا کر مغربی پاکستان کو سامراج کے طور پر نمایاں کیا گیا۔ ص ۲۳۸ قدرت اللہ شہاب بھی بائیں بازو والوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔ انہیں اپنے گرد ’’واہ واہ‘‘ کرنے والے اور خوشامدیوں کا جھمگھٹا پسند تھا۔ ان کے ذاتی نظریات کی وجہ سے رائٹرز گلڈ بہت جلد سُرخوں کا گڑھ بن گیا۔ (ص ۲۳۹) ’’شہاب نامہ‘‘۔ میں آپ جس شخصیت سے آشنا ہوتے ہیں، اس کا تذکرہ الگ رکھیں۔ (دانش یار) ’’شکستِ آرزو‘‘ کے ۱۷ویں اور ۱۸ ویں ابواب میں ایسے بیوروکریٹس کے کردار سے وجودِ پاکستان پر ٹوٹنے والی آفت کا احوال بڑا ہی دل فگار ہے۔ اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کردیا جائے کہ مسلم لیگ کی قیات نے مشرقی پاکستان میں مخلوط انتخابات کا مطالبہ قبول کرکے پاکستان کے بنیادی تصور کو کتنا کمزور کردیا تھا۔ (دانش یار) علیحدگی کے اذہان کی تقویت کے لیے یہ سیاسی فیصلہ مفت میں سرکاری ٹانک بن گیا تھا۔
مصنف نے نگاہِ عبرت اور اخلاص سے برصغیر کے مسلمانوں اور اہلِ پاکستان کو خاص طور پر یاد دلایا ہے کہ اردو زبان اور دین اسلام بقائے ملک کا ذریعہ ہیں۔ اس سے غافل کرنا اب اُس ٹرائیکا کا ایجنڈا ہے جس میں بھارت، اسرائیل اور امریکہ سرگرمی سے سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ کاش اہل پاکستان اس کتاب کا مطالعہ کریں اور ماضی کے آئینے میں اپنے حال کا چہرہ دیکھ کر مستقبل میں سنبھلنے کی صورت اختیار کریں۔
اپنے ملک میں سوچنے سمجھنے والوں کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس نقصان کا ادراک کریں جو پاکستانی تعلیمی اداروں میں نصابی مضامین سے عدم التفات کی شکل میں تاریخ و تحریک پاکستان اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیم گاہوں میں مروجہ فنی،تجارتی اور پیشہ ورانہ میکانکی مضامین کی تعلیم نے یہ احساس ہی غارت کردیا ہے کہ مسلم اور کافر میں کیا فرق ہے؟ ایک محمد علی، محمد اقبال کیوں محبوب خدا و رسولﷺ ہے اور دوسرا ہیری ، ٹام اور ڈک کیوں جہنم کا ایدھن بنے گا؟
جس مسلم اور مرد مومن کا تصور علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ نے دیا ہے، اُسے کشتِ دل میں رونق افروز کرنے کے لیے میری نظر میں سی ایس ایس ، پی سی ایس اور پبلک سروس کمیشن کے ہر امتحان میں درج ذیل کتب خرد افروز اور فکر انگیز ہوسکتی ہیں۔ بشرطیکہ ہر شخص قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ سے بیداری قلب و نظر کے ساتھ جُڑجائے۔ کتب درج ذیل ہیں۔
۱۔
تحریک آزادی ہند اور مسلمان
دوحصے
از سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
۲۔
اسلامی نظریہ حیات
پروفیسر خورشید احمد
مطبوعہ کراچی یونیورسٹی
۳۔
پاکستان ناگزیر تھا
سید حسن ریاض
مطبوعہ کراچی یونیورسٹی
۴۔
Dimension of Pakistan Movement
پروفیسر مرزا محمد منور
مطبوعہ سروسز کلب راولپنڈی
۵۔
INDIA- A Study in Profile
لیفٹیننٹ کرنل جاوید حسن
سانحہ کارگل کے وقت میجر تھے
مطبوعہ سروسز بک کلب راولپنڈی
۶۔
برہمن کا بھیانک چہرہ (ایک مقالہ)
ڈاکٹر چیٹرجی
ادارہ علم و ادب ۲۹۔ غازی علم الدین شہید روڈ۔لاہور
نامناسب ہوگا اگر ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کہ جو واحد مورخ ہیں عصر حاضر میں افکار قائدؒ اور نظریہ پاکستان کے احیاو اشاعت کے لیے خامہ بہ انگشت رہتے ہیں۔ ان کی تصانیف پر مشتمل یونیورسٹیوں کے شعبہ تاریخ و سیاست کے صدر نشین ایم فل کرنے کے لیے طلبہ کو متوجہ کریں۔ صوبائی حکومتیں بھی اگر وجود پاکستان کو اپنی آئندہ نسلوں کا گہوارہ دیکھنا چاہتی ہیں تو وہ اسلامیات اور تاریخ کے پرچوں کو لازمی حصہ امتحان قرار دے لیں۔
اگرچہ شکست آرزو ایک درد مند مسلمان کی رُشحات قلم کا نتیجہ ہے۔ لیکن علاقائیت کا علم اُٹھائے جو قوم پرست جماعتیں پاکستان کے مختلف حصوں میں ہنگامے کرتی ہیں ان سے التماس ہے کہ وہ ایک منحرف پاکستانی فوجی افسر بنگلہ دیشی ایمبیسیڈر لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ شریف الحق دالیم (بیر اُتم) کی تالیف ’’پاکستان سے بنگلہ دیش۔ ان کہی جدوجہد‘‘ کا مطالعہ کریں۔ اس کتاب کا باب پنجم واضح کرتا ہے کہ قوم پرستوں کے کندھوں پر سوار ہوکر جو لوگ حکمران بن جاتے ہیں تو ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اقربا نوازی کے ذریعے اپنی آمریت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ملکی دولت کو شاہ ایران، حسنی مبارک (مصر) ، حافظ لاسد (شام) اور کرنل قذافی کی طرح دشمنانِ پاکستان کے بینک بھرتے ہیں اور عوام کے مصائب بڑھ جاتے ہیں۔