Yaadain Khakay aur An-Kahi Kehaniyan | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

YAADAIN KHAKAY AUR AN-KAHI KEHANIYAN یادیں اور خاکے اور ان کہی کہانیاں

YAADAIN KHAKAY AUR AN-KAHI KEHANIYAN

PKR:   400/-

راشد اشرف کو اتوار بازار سے دوکتابیں ملیں ’’یادیں اور خاکے‘‘ اور ’’ان کہی کہانیاں‘‘۔ پچاس سال پہلے سیدہ انیس فاطمہ کی لکھی ہوئی ان کتابوں کو جب انھوں نے پڑھا تو دل مسوس کر رہ گئے۔ مصنفہ کی بے داغ نثر اور سادہ اور درد میں ڈوبے اسلوب کی غماز ان کے دل سے نکلی ہوئی یہ تحریریں ان کے دل میں اترگئیں اور انھوں نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں ان کی اشاعت نوکا اہتمام کرلیا۔

انیس فاطمہ کی ان دوکتابوں میں جوایک جلد میں ہیں گھریلو ملازموں، محلے میں بسنے والے عام انسانوں اور عزیز و اقارب کے خاکے ہیں۔ راشد کہتے ہیں کہ یہ غریبی کی جنگ لڑنے والوں کی داستانیں ہیں جو تمام عمر اپنی حالت زارکو بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو قسمت کی ستم ظریفی اور حالات کا جبر انھیں دس قدم پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ یہ ان گمنام لوگوں کے قصے ہیں جو اس دنیا میں محض دکھ اٹھانے کے لیے ہی آتے ہیں اور جیسے آتے ہیں ویسے ہی چلے جاتے ہیں۔

’’یادیں اور خاکے‘‘ میں پہلا خاکہ ’’بیلا شاہ۔ میرے ابا‘‘ ہے۔ ولایت حسین جو بیلا شاہ کے نام سے جانے جاتے تھے انیس فاطمہ کے باپ نہیں تھے۔ ان سے ان کا خونی اور جذباتی رشتہ کیا تھا اور ان کی بے پایاں محبت کی آغوش ان کے لیے کب وا ہوئی، داستان این و آں کا یہ ورق سادہ ہی رہا۔ انیس فاطمہ لکھتی ہیں ’’میرے شعور نے جب آنکھ کھولی تو سب سے زیادہ وہی میرے دل کے قریب تھے۔ ان کے وجود میں، میں نے ایسی مقناطیسی کشش دیکھی جو یاد نہیں پڑتا کہ کسی دوسری ذات میں ہو۔
ممکن ہے کہ ان کا غیر معمولی حسن اخلاق اور خصوصی توجہ میرے اس خیال کا باعث بنی ہو۔ یوں تو محلے اور اس بری حویلی کے ہر شخص سے جس میں ہم رہتے تھے، خدمت کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن میرے لیے ان کے دل کے کسی گوشے میں کوئی ایسا مقام چھپا ہوا تھا کہ کچھ نہ کہنے پر بھی صاف ظاہر ہوجاتا تھا کہ ہر ایک معاملے میں استثنیٰ برت رہے ہیں۔‘‘

انیس فاطمہ بتاتی ہیں کہ بیلا شاہ ابا کی آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا۔ وہ ایک بزرگ کے جو ہرے بھرے شاہ کہلائے جاتے تھے، مزار پر شام کو جاکر بیٹھ جاتے تھے اپنی قسمت پر شاکر و صابر جو کچھ مل جاتا مجھ پر خرچ کرکے باقی اپنی منہ بولی ماں کو دے دیتے۔ جس روز مزار پر کچھ نہ آتا تو فاقے کی نوبت آجاتی۔ کئی کئی وقت گزر جاتے اورکسی کوخبر نہ ہوتی۔ صحیح معنوں میں وہ شرم و حیا کے پیکر اور صوفی منش انسان تھے ۔

انیس فاطمہ نے یہ بتانے کے لیے کہ بیلا شاہ ان کی معصوم خواہشوں کا کتنا خیال رکھتے تھے اپنے بچپن کے دور کے ماحول کی جو خوبصورت تصویرکھینچی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ لکھتی ہیں ’’گنگا اور رام گنگا کے دو آبے (روہیل کھنڈ) میں برکھا رُت پوری حشر سامانیوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے آتی، اودی اودی گھٹائیں آسمان پر چھا جاتیں۔ کئی کئی روز ہوجاتے سورج کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ ساون بھادوں کا مہینہ آگیا، ہرگھر میں جھولے پڑگئے، مختلف قسم کی گہرے رنگوں کی چندریاں اوڑھ کر ملہارگائے جا رہے ہیں موسلا دھار بارش ہورہی ہے آم اور پکوان موسم کے خاص تحفے،کوئی گھر ایسا نہیں جہاں سے خوشبوئیں نہ آتی ہوں ۔ بڑی بوڑھیاں کہتیں اگر موسم کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو اللہ میاں ناراض ہوجائینگے۔ ہماری حویلی میں بھی ساون آتے ہی جھولے پڑگئے۔ ہمیشہ سے ابا میرے جھولے کی رسی پہلے سے لاکر رکھ دیتے کہ ہوسکتا ہے ان کا ہاتھ تنگ ہو، ساون کا مہینہ دبے پاؤں سر پر آجائے اور وہ میرا شوق پورا نہ کرسکیں۔ میں جی ہی جی میں کڑھوں، حسرت بھری نظروں سے دوسروں کے جھولوں کو تکوں۔ یہ سب ان کی برداشت سے باہر تھا۔‘‘

انیس فاطمہ لکھتی ہیں ’’پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب میں جوان ہوئی، شادی ہوئی اور میں بریلی سے علی گڑھ چلی گئی۔ ابا سب عزیزوں سے زیادہ میری جدائی سے متاثر تھے۔ ایک بار چند روز کے لیے میرے پاس علی گڑھ آئے اور وعدہ کیا کہ میں عنقریب تمہارے پاس آجاؤں گا لیکن وائے قسمت ایفائے عہد سے پہلے ہی دائمی رخت سفر باندھ لیا۔‘‘

سیدہ انیس فاطمہ نے عام انسانوں اور حرماں نصیبوں کے جو خاکے لکھے ہیں، اس کا ایک پس منظر ہے۔ ’’علی گڑھ کے شب و روز‘‘ ایک ایسی تحریر ہے جو اس پس منظر پر روشنی ڈالتی ہے۔ سید الطاف علی بریلوی سے شادی کے بعد جب وہ علی گڑھ پہنچیں تو آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے صدر دفتر کے کشادہ اور پرفضا احاطے کے ایک بنگلے میں اقامت پذیر ہوئیں۔ الطاف دفتر کے سربراہ تھے اور یہ بنگلہ ان کے لیے مخصوص تھا۔ انیس فاطمہ لکھتی ہیں ’’ہمارے مکان کا محل وقوع ایسا تھا کہ ہر وقت بہار اور تازگی چھائی رہتی تھی۔ وسیع و عریض لان اور باغ کے درمیان کانفرنس کے دفتر کی بلند و بالا عمارت۔ ایک جانب ہمارا بنگلہ، گلاب اور بیلے کے تختوں کے بیچ آنے جانے کا راستہ۔ ہر نیا دن صبح بہاراں کی خبر لاتا اور ہر شام صد ہزار رنگینیاں اپنے جلو میں لیے آتی۔ شکوہ و شکایت کی ساری داستانیں جیسے نصیب دشمناں ہوگئی ہوں۔

یونیورسٹی میں داخلوں کا ہنگامہ، یونین کا الیکشن، نمایش کی گہما گہمی، زندگی رواں دواں۔ خوشی وانبساط کی ان گھڑیوں پر بقائے دوام کی چھاپ لگتی رہتی، لیکن عافیت کا گوشہ تادیر قبضے میں رہے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اس کے لیے خود کو مورد الزام گردانا جائے تو ٹھیک ہے۔ ہنستے،گنگناتے چلے جا رہے ہیں۔ کس نے کہا تھا کہ راہ میں پڑے قسمت کے مارے لوگوں کو مڑکر دیکھو اور اپنی خوشیوں سے بھرپور دنیا کو تاراج کرکے رکھ دو ۔ مقاماتِ آہ و بکا میں جب ایک بار کھو گئے تو خود کو پانا مشکل ہوجائیگا چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں اس قسم کے حالات نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ یہ سب سہواً ہوا یا عمداً۔ قصوروار میں تھی یا دوسرے لوگ ‘‘۔

’’آبادی کی حد بندیاں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ علی گڑھ اس سے مستثنیٰ نہ تھا۔ لان اور باغیچوں کے درمیان محل نما بنگلے، مشرقی اور مغربی طرز پر سجے ہوئے اور ان کے پچھلے حصے کی جانب یونیورسٹی سے متعلق شاگرد پیشہ کی بغیر صحن کی اندھیری کوٹھریاں جیسے موت کے غار۔ فرقِ مراتب نمایاں تھا۔ اس دنیا اور ہمارے درمیان فاصلہ بہت دور کا تھا۔‘‘

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ’’یادیں اور خاکے‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں۔ ’’علی گڑھ کے شب و روز‘‘ سوانح سے زیادہ تاریخ ہے کیونکہ اس میں افراد سے زیادہ ماحول کی عکس کشی پر زور ہے مگر غور سے دیکھاجائے تو ہر ٹکڑے میں فرد کی تصویرکے چاروں طرف ایک ماحول بھی روشن ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور اس ٹکڑے میں بھی ماحول کے اندر افراد جاذب نظر ہوجاتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ جو حضرات نامور ہستیوں کی سوانح لکھتے ہیں انھیں اپنے ہیرووں کو پراثر بنانے کے لیے بہت کچھ خلوص کا خون کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک طرف تو خود ان کی اپنی طرفداری موضوع کی خامیوں کو خوبیاں دیکھتی ہے۔ دوسری طرف انھیں عوام کے جذبات کا خیال ضرور ہوتا ہے اس لیے وہ موضوع کی خرابیوں کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ جس قسم کی سوانح سیدہ انیس فاطمہ نے اس مجموعے میں پیش کی ہے اس میں اس قسم کی مصلحت کا سوال ہی نہیں اٹھتا کیونکہ جن لوگوں کو وہ سامنے لاتی ہیں ان کی بابت عام رائے ملتی ہی نہیں اور اس لیے اختلاف رائے کا سوال ہی نہیں اٹھتا اور سوانح نگارکو مصلحت کوشی میں لگنا نہیں پڑتا۔‘‘

انیس فاطمہ نے خود بھی تو یہی بات کہی ہے کہ غیر معروف ہونا اپنی ذات کی تکمیل میں کبھی حارج نہیں ہوتا۔ بام شہرت پر پہنچنا ہرکسی کا مقدر نہیں۔ یہاں کس قدر لوگ ایسے ہیں جن کو بنی بنائی شاہراہیں چلنے کو مل جاتی ہیں؟

ڈاکٹر شوکت سبزواری ’’ ان کہی کہانیاں‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں۔ ’’ انیس فاطمہ کو خدا نے ایک حساس دل دیا ہے۔ انھوں نے گرد و پیش کی ستم زدہ شخصیات سے گہرا اثر لیا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ رات کی خاموشی میں لوگوں کی دل دوز چیخیں سنی ہیں۔ ایک فنکار کی سب سے بڑی خوبی ذکاوتِ مس اور رقتِ قلبی ہے۔ انیس فاطمہ ان دونوں سے فیض یاب ہیں ۔ واقعات و شخصیات سے اثر لینے کے بعد ہی ان کے قلم نے رودادِ غم بیان کی ہے۔ وہ زندگی کے تاریک، یاس آفریں پہلو کی مصور ہیں۔ فطری طور سے زندگی کے دل دوز مناظر سے انھوں نے جو اثر لیا ہے وہ چاہتی ہیں کہ دوسرے بھی وہی اثر لیں۔ خون کے آنسو بہاکر وہ دوسروں کو رلانا چاہتی ہیں ۔

ہم روئے یا رلایا ‘ اپنی تو یوں ہی گزری

کالم: رفیع الزمان زبیری
منگل 7 اگست 2018

RELATED BOOKS