DEED WADEED دید وادید
DEED WADEED دید وادید
”دید وادید“ ممتاز پاکستانی ادیبہ الطاف فاطمہ کے لازوال افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جیتے جاگتے محسوس ہونے والے کرداروں اور دل گداز کہانیوں کی خالق الطاف فاطمہ کا تخیل بھرپور، نثرمسحور کن، کردار نگاری جان دار، منظرکشی اور جزیات نگاری طلسماتی حد تک دلآویز ہے جس باعث ان کی تحریریں پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہیں۔الطاف فاطمہ 10جون 1927ءکو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ان کے اجداد کا وطن خیرآباد تھاجو 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد ریاست پٹیالہ میں آباد ہوگئے۔والد فضل امین، علی گڑھ سے فارغ التحصیل اور ریاست جاورہ کے چیف سیکریٹری تھے۔علامہ فضل حق خیرآبادی اورہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھے جانے والے پہلے ناول ”نشتر“ کے خالق حسین شاہ کا علمی و ادبی کام انہیں وراثت میں ملاکہ دونوں کا تعلق ان کے خاندان سے تھا۔ اردو کے منفرد افسانہ نگار سید رفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے۔ اس قدر زرخیز ادبی وراثت کی حامل الطاف فاطمہ کی لازوال تحریریں یقینا اس قابل ہیں کہ اردوزبان و ادب انہیں فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔
1947ءمیں الطاف فاطمہ خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے لاہورآئیں۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو اور بی ایڈ کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئیں۔دورانِ تعلیم ہی باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا، ”نشانِ محفل“ ان کا پہلا ناول ہے ،یہ شاہکار ناول انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں تحریر کیا تھا۔ ان کا یادگار ناول ”دستک نہ دو“ نصاب کا حصہ ہے جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور پاکستان ٹیلی ویژن سے اس کی ڈرامائی تشکیل بھی نشر ہوچکی ہے۔ ریڈیو کے لیے فیچرز بھی لکھتی رہیں۔ انہوں نے عالمی ادب پاروں کے اردو تراجم بھی کیے۔ ہارپر لی کے شہرہ آفاق ناول To Kill a Mocking Bird کا اردو ترجمہ ”نغمے کا قتل“ کے نام سے کرچکی ہیں جسے اردو ترجمے میں ایک مثال کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بنگالی، مراٹھی، تامل، گجراتی اور ہندی افسانے؛ لاطینی امریکی خواتین اور جاپانی خواتین کے افسانوں اور ایلسا مارسٹن کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق کہانیوں کو بھی اردو کے پیرہن میں ڈھال چکی ہیں۔