Nai Kahaniyan Aur Zara Si Baat

NAI KAHANIYAN AUR ZARA SI BAAT نئی کہانیاں اور ذرا سی بات

NAI KAHANIYAN AUR ZARA SI BAAT

PKR:   1,200/- 840/-

Author: TASNIM MINTO
Binding: hardback
Pages: 256
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-620-6
Categories: SHORT STORIES KHAKAY / SKETCHES
Publisher: BOOK CORNER

افسانہ نگار تسنیم منٹو کے اختیار کردہ موضوعات میں حیرت انگیز تنوع ہے۔ اِسی سبب سے ان کے افسانوں کے کردار بھی اپنے اپنے مقام پر منفرد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے افسانوں کا قاری، ان کے ہر افسانے میں، معاشرے کی نئی صورتِ حال، نئے نفسیاتی مسائل اور نئے افراد سے متعارف ہوتا ہے۔ یوں جدید اُردو افسانے کا پینوراما اُفق تا اُفق پھیل جاتا ہے۔ اِن افسانوں میں ان کی قوتِ مشاہدہ نے کہیں بھی ٹھوکر نہیں کھائی۔ ان کا تجزیاتی مزاج کہیں بھی مبالغے کی زد میں نہیں آیا۔ اُن کے اُسلوبِ اظہار کی روانی میدان میں بہتے ہوئے دریا کی مثال ہے کہ وہ بہہ رہا ہوتا ہے، مگر بہتا محسوس نہیں ہوتا۔ زبان و بیان کی یہ وہ صفت ہے جو دورِ حاضر میں بہت کم افسانہ نگاروں کو ودیعت ہوئی ہے۔
احمد ندیم قاسمی

تسنیم کی کہانیاں اِس لیے بھی خاص ہیں کہ اِن میں ایک معمر عورت کے تجربات ایک بھرپُور معاشرتی حوالے کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ یہ عورت بھرے پُرے خاندان میں سانس لیتی ہے۔ وہ معاشی طور پر بھی زیر دست نہیں۔ اُس میں اپنی ہستی اور عزّتِ نفس کا نہایت مہذب شعور ہے۔ وہ خود رحمی کا بھی شکار نہیں۔ بس وہ اپنی عمر کے معاملات کو نہایت وقار کے ساتھ بسر کر رہی ہے۔ اُس کے اِس تجربے میں رُوحانی پہلو غالب ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہمارے معاشرے میں آنے والی بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ذہنی بلوغت کے آثار ہیں کہ اب عورت ہر عمر اور زندگی کے ہر مرحلے کو نہ صرف قبول، بلکہ اُس کا خندہ پیشانی سے استقبال بھی کرتی ہے۔
خالدہ حسین

مجھے اکثر محسوس ہوتا کہ تسنیم منٹو کو بھی راجندر سنگھ بیدی کے ایک قول کے مطابق گلی کے ہر موڑ پر بیسیوں افسانے پڑے نظر آتے ہوں گے، جنھیں عام لوگ روند کر گزر جاتے ہیں، لیکن افسانہ نگار کسی ایک افسانے کو اُٹھاتا ہے، اور اُسے فن پارہ بنا دیتا ہے۔ بلا شبہ تسنیم منٹو نے اپنے افسانے زندگی کے گھمسان سے ہی تلاش کیے ہیں، اور یہ موضوعات کے اعتبار سے متنوع، ابلاغ کے لحاظ سے مستقیم اور تکنیک کے لحاظ سے داخلی آہنگ کے آئینہ دار ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید

کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں، مگر جلد چھا جاتے ہیں۔ تسنیم منٹو بھی ادب میں دیر سے آئیں، مگر بہت جلد اپنا نمایاں مقام اور معتبر نام بنالیا۔ اُنھوں نے ابھی تک کم لکھا ہے، لیکن جو کچھ اور جتنا بھی لکھا، وہ اُن کی حیثیت اور اہمیت منوانے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہانی لکھتی ہیں، بیان کرتی ہیں، وہ واقعات کو بُنتی ہیں، چُنتی ہیں، اور تحریر کا جامہ پہنا دیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے، اُن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ شاید قلم تھک جاتا ہے اور کاغذ کا سینہ تنگ پڑ جاتا ہے۔ اُن کی ایک کہانی ہی میں کئی کہانیاں چہک اور مہک رہی ہوتی ہیں، دیکھیں، تو کبھی آپس میں گندھی ہوتی ہیں، غور کریں تو دسیوں داستانیں کہہ رہی ہوتی ہیں۔ یہ خوبی بہت کم لکھنے والوں کو ملتی ہے۔
اظہر جاوید

کہانی شاید اُس وقت پیدا نہیں ہوتی جب اُسے سوچا جاتا ہے، بلکہ یہ درجہ بدرجہ پڑھنے والے کے اندر مُرتّب ہوتی ہے، مصنف کا تصور اُس کی تصنیف کا پیش رو ہوا کرتا ہے، اور پھر پڑھنے والے مصنف کی تحریر کو خود مصنف سے بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تحریر میں مضمر انکشافی صورتِ حال کو اپنے اُوپر وارد کر لیتے ہیں۔ کہانیوں کا یہ ناگہانی انجام مصنف کے دائرئہ اختیار سے باہر ہے۔ تسنیم کی کہانیاں اِس عہد کی پڑھی لکھی، صاحبِ ادراک اور صاحبِ ثروت عورتوں کی انانیت کے لیے ایک ایسا ہی لمحہء فکریہ ہیں۔
ڈاکٹر شاہین مفتی

تسنیم کی کہانیاں من گھڑت نہیں، من کی کہانیاں ہیں، وہ جن کرداروں کو بہت گہرا دیکھ لیتی ہے، اور پہچان گہری ہونے پر کہانی کے لیے اُن کا حق تسلیم کر لیتی ہے۔ اور پھر جیسا کہ ہوتا ہے، اپنا لکھا ہوا کردار اپنا ہو جاتا ہے، ہمیشہ کے لیے۔ ایک معمولی کردار کو، ایک ذرا سی بات کو جب ادب کے دربار میںکوئی مقام مل جاتا ہے، تب وہ بڑا بن جاتا ہے، اور وہ بات بڑی بات بن جاتی ہے۔
افضل توصیف

RELATED BOOKS