Jaan Ke Dushman

JAAN KE DUSHMAN جان کے دشمن (بچوں کے لیے کہانیاں)

JAAN KE DUSHMAN

PKR:   500/- 350/-

Author: HASAN MANZAR
Tag: FATIMA RAHE
Binding: paperback
Pages: 183
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-610-7
Categories: SHORT STORIES CHILDREN
Publisher: BOOK CORNER

ایک بڑے ادیب کی جانب سے بچوں کے لیے سوغات
تصویری کتاب، پیپر بیک اشاعت، فرہنگ کے ساتھ!!

====== کتاب کی کہانی ======

جب یہ کہانیاں پہلی بار چھپی تھیں اُس وقت کے ان کو پڑھنے والے اب اس لائق ہو گئے ہیں کہ کبھی کبھی مجھ سے گفتگو میں ان کا ذکر لے آتے ہیں، اور بعض اپنے چھوٹے بہن بھائی کا مجھ سے تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’چاہیں تو ان سے اپنی ___کہانی سن لیجیے‘‘، جس سے ظاہر ہوتا ہے بچہ ذہین ہے۔ اور اکثر ایسے بال سفید ہوتے ہوئے بچے مجھے یوں داد دیتے ہیں کہ آپ کی کتاب ’’جان کے دشمن‘‘ میں نے خود پڑھی اور بچوں کو بھی پڑھ کر سنائی، کیا بات ہے!‘‘ اس بات کو وہ گول کر جاتے ہیں کہ میر ی جو کتاب اُن کے لیے تھی وہ بھی انھوں نے پڑھی یا نہیں۔

فکشن یعنی کہانی... جس نوعیت کی بھی ہو، پلے، ناول یا افسانہ لکھنے والا اپنے لیے نہیں لکھتا ہے۔ اس کی محنت کے لیے یہ کہنا کہ عبادت ہوتی ہے، غلط ہے۔ عبادت خدا کی کی جاتی ہے، جس کا صلہ بولنے اور لکھنے میں نہیں، آنے والے وقت میں عبادت کرنے والے کو ملتا ہے۔

کہانی لکھنے والا چاہتا ہے اس نے جو لکھا ہے، کچھ تو پتا چلے اس کا پڑھنے والے پر کیا اثر ہوا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے پڑھنے والے نے کسی غیر اہم چیز کے اشتہار کی طرح پڑھا اور پڑھ کر یہ تک بھول گیا کہ کس چیز کا اشتہار تھا۔

میں بچوں کے لیے لکھوں یا بڑوں کے لیے، کوشش میری یہی ہوتی ہے کہ کہانی کی ’’تھیم‘‘ کو نہ دہراؤں... نہ اپنی نہ کسی اور کی لکھی ہوئی کو۔ میری لکھی ہوئی کہانی، جیسی بھی ہو، میری اپنی ہوتی ہے۔ اگر کسی پشت ہا پشت چلی آنے والی کہانی کا اس میں جوڑ ہو تو میں اسے ’’بازگوئی‘‘ لکھتا ہوں کہ دوبارہ اپنے طریقے سے سنا رہا ہوں، جیسے ’’دیو کا باپ‘‘۔ خدا جانے کب کی سنی یا پڑھی ہوئی دو کہانیوں کا ملاپ ہے۔

ایک موقع پر جب بچوں کے لیے کتابیں لکھنے والی ایک خاتون نے قدرے تعجب سے کہا تھا، ’’تو کیا آپ کی بچوں کی کہانیاں بھی آپ کی اپنی تخلیق ہوتی ہیں!‘‘ یعنی مشہورِ زمانہ قصوں پر مبنی نہیں، تو ان کا یہ جملہ میرے لیے کلاس میں فرسٹ پوزیشن لینے کی خوشی سے کم نہیں تھا۔

ادیبوں اور لکھے ہوئے ادب کی قیمت کو پرکھنے والوں کی میری فکشن کے بارے میں جو بھی رائے ہو اُس کی نسبت میرے لیے وہ رائے سچی خوشی کا باعث ہوتی ہے جو کسی عام پڑھنے والے کی زبان سے نکلے... وہ بچہ ہو یا بڑا اور گفتگو میں میری کہانی کا حوالہ دے بیٹھے: اس کا کہنا، ’’آپ نے جو لکھا ہے...‘‘ یہ سن کر جھوٹ نہیں بولوں گا، خوشی کے مارے میرا دماغ ساتویں آسمان پر ہوتا ہے۔

افسوس یہ کہانیاں اپنے بڑوں کو نہیں سنا سکتا ہوں۔ سب اللّٰہ کو پیارے ہوئے، والدہ اور پرنانی تو کیا بڑی بہن ماظرہ بھی۔ زندگی کی ساتھی طاہرہ نے یہ کہانیاں لکھے جانے کے فوراً بعد پڑھی تھیں اور ان کی رائے نے کہانیوں کو بہتر بنایا تھا۔ نیا ایڈیشن ان کے نام بھی ہے، افسوس ہے وہ اسے نہیں پڑھ سکیں گی۔ 

کتاب ایک دریا کی طرح ہوتی ہے، اس کے بھی دو کنارے ہوتے ہیں، ایک پر اس کا لکھنے والا کھڑا ہوتا ہے، دوسرے پر اسے چھاپنے والا۔ دونوں ہی کی ہمت افزائی کرنے والے بھی ہوتے ہیں، جن تک پڑھنے والوں کی نظر کم ہی جاتی ہے بلکہ اکثر نہیں جاتی۔ ’’جان کے دشمن‘‘ کے میری طرف والے کنارے پر میری دو چھوٹی بہنیں بھی کھڑی ہیں... ناہید ارشاد (پارو) اور تہمینہ صابر امتیاز (رولا)۔

جب ہم صدی بھر پہلے کی چھپی ہوئی اردو کلاسیکل ادب کی کوئی کتاب مثلاً ’’توبۃ النصوح‘‘ پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے، اُس زمانے میں کتاب کے اخیر میں باقاعدہ مشکل الفاظ کے معنی، واقعات اور بیان کی ترتیب سے دیے جاتے تھے۔ وہ طریقہ نامعلوم کس عاقل ہستی نے غیرضروری سمجھ کر ختم کر دیا اور پڑھنے والوں کا یہ عالم ہوا کہ ’’کالعدم‘‘ کو ’’کالا آدم‘‘ سمجھ کر پڑھتے رہے اور ایسے کتنے ہی الفاظ، محاورے اور روزمرہ سننے میں آنے والے جملے تھے جو وقت کے ساتھ بول چال سے گم ہوتے جاتے رہے ہیں، اب کہاں سب کی سمجھ میں آتے ہوں گے اور ان کے کیا معنی آج کل کے بچے، بڑے لیتے ہیں!

اور اب بیس، پچّیس برس سے تو وہ زمانہ ہے کہ نئی ترکیبیں سننے میں آتی ہیں: ’’میں یہ کتاب انھیں سینڈ کروں گی‘‘، ’’یہ کام کروں گا نہیں‘‘، ’’میں آپ کو کل فون کرتا ہوں‘‘۔ میسج save کیے جاتے ہیں اور ایک کی بات دوسرے سے text کی جاتی ہے۔

طلبہ جب میری طرف ’’سر جی‘‘ کر کے رجوع کرتے ہیں تو میں حیران ہوتا ہوں وہ جو دو لفظ تھے ’’محترم‘‘، ’’محترمہ‘‘ اور ’’مکرمی‘‘، ’’مکرمہ‘‘ کیا وقت کے ریگستان میں گم ہوگئے جو یہ دو زبانوں کا مہمل مشتق وجود میں آیا ہے!

مجھے خوشی ہے کہ اس گمراہی کو میری کتاب ’’داخلے کا دن‘‘ کے پبلشر جناب امر شاہد نے صائمہ رضا کے تعاون سے دور کیا اور کتاب میں مشکل الفاظ کے معنی دیے۔ اور یہی کارِ احساں برخورد و کلاں پبلشر اور لغت نویسہ ’’جان کے دشمن‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں برقرار رکھ رہے ہیں۔ دونوں کا شکریہ کم عمر پڑھنے والوں کی طرف سے میں ادا کرتا ہوں۔

امید ہے ان کہانیوں کے پڑھنے والوں کو ان کے بعض سین تصویروں کی شکل میں یاد رہیں گے جنھیں میری فرمائش پر فاطمہ راحی نے بنایا ہے۔ مجھے تو پسند آئی ہیں۔ بچے اپنی ان فاطمہ باجی کا شکریہ ادا کریں۔

حسن منظر
کراچی

RELATED BOOKS