Mantara (2nd Edition)

MANTARA (2ND EDITION) منتارا

MANTARA (2ND EDITION)

PKR:   1,200/- 720/-

Author: MUHAMMAD HAFEEZ KHAN
Pages: 230
ISBN: 978-969-662-597-1
Categories: NOVEL
Publisher: BOOK CORNER

اکیسویں صدی میں ناول کی روایت کو تاریخی، تہذیبی، سیاسی اور تمدنی سطح پر ثروت مند کرنے والوں میں سب سے اہم نام حفیظ خان کا ہے، جن کے ناولوں میں ہندوستان کے مختلف خطّوں، تہذیبوں اور تاریخ کے دھاروں میں بہتی ہوئی سچائی کو دریافت کرنے کی جو اُمنگ قاری کا دل موہ لیتی ہے وہ حفیظ خان کے تخلیقی طلسم کا نقطۂ عروج ہے۔ ان کا ناول ’’منتارا‘‘ دوسری اشاعت میں ’’بک کارنر جہلم‘‘ سے شائع ہو رہا ہے۔ یقیناً ناول کی مقبولیت میں امر شاہد اور گگن شاہد کا بھی اہم حصّہ ہو گا۔ حفیظ خان کے فن کی جہتوں کو اگر سمجھا جائے تو میں نے ان کے تمام ناولوں میں بیانیہ میں بدلتے ہوئے تکنیک کے تجربوں کو محسوس کیا ہے۔ وہ ہر ناول میں کہانی کہنے کے مزاج کا پینترا بدل دیتے ہیں۔ یہ صفت ایک زرخیز تخلیقی دانش کا ہی کرشمہ ہوتا ہے۔ ’’منتارا‘‘ ہماری تاریخ، ہماری انتظامی زندگی کی ناکامیوں اور ہماری کوتاہیوں کا موزَیک ہے۔ حفیظ خان نے اپنے اس ناول میں آئینہ بکف ایک مورّخ اور کہانی کار کا کردار ادا کر دیا ہے۔
(اصغر ندیم سیّد)

محمد حفیظ خان کم و بیش اپنے ہر ناول میں تاریخ یا سیاست یا دونوں کے کسی ایسے گوشے کو منتخب کرتے ہیں جو ’نازک‘ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ناولوں کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فکشن، محض ایک دلچسپ، مربوط پلاٹ کی، تفریحی نوعیت کی کہانی لکھنا نہیں ہے (یہ کہانی بھی انھیں لکھنا آتی ہے)، بلکہ فکشن کو ایک ایسی تخیّلی، بیانیاتی سپیس تصور کرنا ہے، جو حقیقی انسانی مسائل کی مخفی پرتوں کو کھولنے اور سمجھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ منتارا، ہماری ہی کہانی ہے۔ ہمارے وطنِ عزیز کی اور اس کی تازہ ترین تاریخی و سیاسی صورتِ حال کی۔ اس ناول میں اگرچہ سیاسی کھیل کو اس کی باریکیوں کو پیش کیا گیا ہے، تاہم اس کے کردار مہرے بننے کے باوجود اپنی خوشی، رنج، ذلت اور بے بسی کو محسوس کرتے ہیں۔ چناں چہ یہ سیاسی ناول، کرداروں کی کئی نجی، نفسیاتی اور وجودی گرہوں کو بھی کھولتا ہے۔
(ناصر عباس نیّر)

’’منتارا‘‘ کی کہانی ایک عام سے منظر اور پس منظر میں کولمبو اور پھوکٹ کے ساحلوں پر بہت دھیمے خرام کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ حسن و عشق کی چہلیں ہیں، خود سپردگیاں ہیں، ناز و نخرے ہیں، جسموں کی گہرائیوں کے بھید بھی ہیں اور بھاؤ بھی۔ یوں کہانی دھیمے دھیمے رفتار پکڑتی ہے اور حاکمیت کے بے رحمانہ اسلوب ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے منجدھار میں پہنچ کر یہ رفتار دیوانگی کی خونیں حدوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ کہانی کی زیریں لہروں کی بو قلمونی تہ میں پڑی حیرتوں کی ریت کو اس وحشت و دہشت اور شدت کے ساتھ کھودتی ہے کہ قاری ہر ہر قدم پر خود کو نیچے ... اور نیچے دھنستا پاتا ہے۔ سیاسی جرائم کی لامتناہیّت دم لینے کی مہلت ارزانی نہیں کرتی۔ کہیں پڑھا تھا کہ قلوپطرہ کی ناک اگر ذرہ بھر مزید لمبی ہوتی تو تاریخِ عالم کچھ اور ہوتی، ’’منتارا‘‘ پڑھنے سے پہلے یہ جملہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ ہر دور کی سیاسی قحبہ گیری ہو یا قلوپطرہ کی ناک، ’’منتارا‘‘ کی قلوپطراؤں کی یہاں کی سیاست پر فرماں روائی صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہاں ’’سیاسی طوائف‘‘ کی برانڈ نیو اصطلاح اپنی تمام تر معنوی برہنگی کے ساتھ موجود ہے۔ مخدوم ناظر حیات ایک سیدھا سادہ سا حُسن پرست کردار ہے لیکن انتشاری مہاجرت نے اسے ہوس کا خانہ بدوش بنا رکھا ہے۔ ایک گرم آغوش اسے سیاسی وجاہت سے زیادہ عزیز ہے۔ حفیظ خان نے اسے بڑی ہی خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ تیار کیا ہے۔
(انوار فطرت)

RELATED BOOKS