NIKALTA HUWA DIN نکلتا ہوا دن
NIKALTA HUWA DIN نکلتا ہوا دن
PKR: 1,200/- 720/-
فرخ یار معاصر اُردو نظم کے ممتاز شاعر ہیں۔ جدید نظم کے شاعر کو امتیاز مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے نظم میں محض نیا ڈِکشن ہی نہیں، نئی حسیت بھی پیش کرنا ہوتی ہے۔ جدید شاعر سے زیادہ کوئی لفظ و معنی اور ہیئت و موضوع کی کشاکش سے آگاہ اور ان سے عہدہ بَر آ ہونے کے اختراعی طریقوں سے واقف نہیں ہوا کرتا۔
فرخ یار کے یہاں نیا، منفرد اور ان کا اپنا ڈِکشن بھی ہے، اور ایک نئی، خود اپنے مطالعے و تفکر، ذوقِ جمال اور معاصر دنیا کی تفہیمِ خاص سے اخذ کی گئی حسیت ہے۔
فرخ یار کی نظمیں پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اس زمین اور انسانی وجود پر گزرنے والے وقت سے بہ طور خاص دل چسپی ہے۔ ان کے زیرِ نظر مجموعے کا نام ’’نکلتا ہوا دن‘‘ بھی، وقت سے ان کے لگاؤ، اور کچھ کچھ تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ زمان و مکاں کے طلسم کو توڑ کر انسانی وجود یا اس سے ماورا کی کسی جہت کو دریافت کرنے میں یقین رکھتے محسوس نہیں ہوتے، بلکہ مقام و زماں اور ان سے انسانی ہستی کے تعلق اور ان کے بیچ جاری، ہمہ جہت گفت و شنید سے پیدا ہونے والے طلسم کو منظوم کرنے میں اعتقاد رکھتے محسوس ہوتے ہیں۔ زمین و زماں اور وجود میں ربطِ باہمی کا احساس ہی انھیں ایک طرف حقیقی، حسیاتی سطح پر محسوس کرنے کی تحریک دیتا ہے، اور دوسری طرف ان کی استعاراتی، علامتی و تہذیبی جہات سے متعارف ہونے اور معانقہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ وہ مٹی و ہستی کی مہک، قوتِ نمو، مظاہرِ وجود، ان کی اساطیر، قصوں، کاروانوں، تجربوں سب کو بیان میں لاتے ہیں۔ بیان کے لیے وہ اپنی ایک مخصوص زبان وضع کرتے ہیں۔ اس زبان میں زمین، اس پر بہتی ندیوں، جنگلوں، ٹیلوں، ویرانوں، بارانی فصلوں، گزرتے موسموں، گزرے زمانے کی تاریخ اور لکھی کہانیوں، ان کے کرداروں کا ذکر ہے۔ کئی طرح کے آہنگ بھی ان کی نظم میں ملتے ہیں، جن میں یہیں کی مٹی کلام کرتی اور گنگناتی محسوس ہوتی ہے۔
اس مجموعے کی پہلی نظم ’’زمیں ہر جگہ بولتی ہے‘‘ (جو طویل ہے)، میں تو ان کی نظم نگاری کے جملہ بہترین عناصر سمٹ آئے ہیں۔ اس بنا پر یہ اُردو کی اہم نظموں میں شمار کی جائے گی۔ ان کی باقی نظموں میں ایک دوسرے وجود سے مسلسل مکالمہ ہے۔ اس مکالمے میں وارفتگی کے ساتھ ساتھ، دو روحوں کے اکٹھے سفر کے کئی مراحل کا احوال ہے۔ یہ نظمیں ذات کا سفرنامہ بھی کہی جا سکتی ہیں، اور اس سفرنامے میں دشت بھی ہے اور وحشت بھی۔ انسانی وجود کا دشت اور انسانی دل کی وحشت۔
اپنے عہد کے ایک ممتاز شاعر کی کتاب کا تعارف میرے لیے باعثِ مسرت ہے۔
(ناصر عباس نیّر)