Qissa Paun Sadi Ka (2nd Editon)

QISSA PAUN SADI KA (2ND EDITON) قصہ پون صدی کا

Inside the book
QISSA PAUN SADI KA (2ND EDITON)

PKR:   1,500/- 1,050/-

Author: ABID HASSAN MINTO
Pages: 343
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-510-0
Categories: AUTOBIOGRAPHY MEMOIRS
Publisher: BOOK CORNER
Publish Date: 05 March 2025

عابد حسن منٹو کی سرگزشت ’’قصّہ پون صدی کا‘‘ ہماری عوامی سرگزشت کا ایک عبرت ناک باب ہے۔ میں نے عابد حسن منٹو کو پہلے پہل گورنمنٹ کالج کیمبل پور (حال اٹک) میں یومِ غالب کی ایک تقریب میں دیکھا اور سنا تھا۔ خود میں نے اس تقریب میں اپنا پہلا مضمون بعنوان ’’غالب، غزل سے قصیدے تک‘‘ پڑھا تھا۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ہمارے اس کالج میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر محمد عثمان ہر سال تین روزہ ادبی تقریبات کے انعقاد کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ان تقریبات میں پشاور، واہ کینٹ اور راولپنڈی سے بزرگ اور نوجوان ادیب اور شاعر شریک ہوا کرتے تھے۔ انہی محفلوں میں مَیں نے عابد حسن منٹو اور احمد فراز کی گرمیٔ گفتار سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ جب میں راولپنڈی آ بیٹھا تب عابد حسن منٹو قانون کی تعلیم کی جستجو میں لاہور جا پہنچے تھے۔ ایک ماہرِ قانون کی حیثیت سے ان کا تاریخ ساز کردار پاکستان میں زرعی اصلاحات کے لیے جہدِ مسلسل ہے...
عابد حسن منٹو نے اپنے دورۂ روس کے دوران ذاتی مشاہدات و تاثرات کی روشنی میں جو نتائج اخذ کیے ہیں، میں ان پہ یقین رکھتا ہوں۔ مجھے سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد اپنے مختصر قیامِ روس کے دوران وہ تجربہ اور مشاہدہ یاد آیا ہے جو میں نے وہاں کے عوام و خواص میں کمیونزم سے اٹوٹ وابستگی کی صورت میں دیکھا تھا۔ میں نے جس کسی سے بھی یہ سوال کیا تھا، ’’آپ کے خیال میں اشتراکی نظام کی ناکامی کا بنیادی سبب کیا ہے؟‘‘ اس پر ہر کسی نے تڑپ کر ایک ہی جواب دیا تھا، ’’نہیں! اشتراکی نظام تو ناکام نہیں ہوا، ہم ناکام ہوئے ہیں۔‘‘ ان میں سے ہر ایک نے سٹالن کے دورِ اقتدار کے مظالم کا حوالہ بڑی درد مندی کے ساتھ دیا تھا۔ عابد حسن منٹو کا زیرِ نظر زندگی نامہ بھی اسی حقیقت کا شاہد عادل ہے۔
(فتح محمد ملک)

یہ ’’قصّہ پون صدی کا‘‘ ہے جسے لکھنے والی میری محبوب شخصیت ہے۔ پہلا باب ہی دلچسپی سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کہیں بھی نہ خاندان کی امارت، نہ ان کے علم کی بڑھکیں اور نہ ہی قصیدے ہیں۔ بقیہ سات ابواب جو کہ عنوانات سے ہی واضح ہیں، ان میں پاکستان کی سیاسی زندگی کے اندرونی اور بیرونی ہر سطح کے منظرنامے اپنے مکمل اثرات کے ساتھ موجود ہیں۔ سماجی زندگی کے بہت اہم ایشو کا بھی ذکر ملتا ہے۔ انڈیا اور دیگر ملکوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کا ذکر ہے جن میں اُن کا کردار بہت نمایاں ہے۔ ذاتی زندگی سے متعلق بہت سے دلچسپ واقعات اور عادات کی باتیں ہیں۔ سگریٹ نوشی ایک سال جاری رکھنے اور دوسرے سال بند کرنے کی تفصیل بڑی حیران کن ہے۔ یہاں ان کی جیلوں میں یاترا کی کہانیاں ہیں۔ کہیں فیصل آباد، کہیں بہاول پور، کہیں لاہور۔ ان کے اپنے ساتھ ساتھ تسنیم اور بچیاں بھی مظاہروں اور احتجاج کی دوڑ میں شامل ہو گئیں۔ قانونِ شہادت کے سلسلے میں ویمنز ایکشن فورم اور انجمنِ جمہوریت پسند خواتین کے بینر تلے تسنیم کی گرفتاری اور جیل یاترا کا بھی تفصیلی ذکر ہے۔ ان کا اسلوب اتنا سادہ اور دلچسپی سے بھرا ہوا ہے کہ نہ سیاسی حقائق بور کرتے ہیں اور نہ تاریخی اعداد و شمار۔ وہ کہیں اپنا فلسفہ نہیں جھاڑتے، ہر بات مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ جو اصول انھوں نے اپنے لیے وضع کیے تھے وہ ہمیشہ اس پر کاربند رہے۔ اُن کی ریٹائرمنٹ پر ایک آدھ سال پہلے اپنی ایک ملاقات میں، مَیں نے ان کے انداز میں جو طمانیت اور سکون محسوس کیا تھا وہ قابلِ رشک تھا۔ مجھے محسوس ہوا تھا جیسے ان کے جسم کا ہر عضو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ میں نے اپنی زندگی کا ہر دن اسی انداز میں گزارا جو اس کا حق تھا۔ اور اب میرا کام ختم ہوا۔ پاکستان تیرا اللّٰہ حافظ!!
(سلمیٰ اعوان)

عابد حسن منٹو کی خودنوشت ’’قصہ پون صدی کا‘‘ اردو میں اب تک لکھی گئی اردو خودنوشتوں میں سب سے اہم کتاب ہے، کیونکہ پاکستان کے نفیس ترین انسانوں میں پھر کبھی کوئی عابد حسن منٹو نہ ہو گا جو 90 برس کی عمر میں اتنے سادہ اور دل نشیں طریقے سے لکھے۔ وہ صفِ اوّل کا وکیل، کمیونسٹ پارٹی کا رکن، طالب علموں کے مباحثوں کو فکری رُخ دینے والا، خوش الحان (اذان سے گائیکی، ستار نوازی) جج بننے یا دیگر منصبوں کی پیشکش ٹھکرانے والا، گورڈن کالج جا کر خواجہ مسعود کا قابلِ اعتماد شاگرد ہو کر، ایف ایس سی میڈیکل میں فیل ہو کر، پرائیویٹ بی اے کرنے کے لیے السنہ شرقیہ کے امتحان دے کر، لاء کالج پہنچ کر وکیلوں کے خاندان کا فرد بن کر، اس باپ کی مالی مدد اور لائبریری کا وارث ان کے جیتے جی بنا جس کا دل شاید ڈاکٹر نہ بن کے توڑا ہو، اپنی ماں کو بڑی بہو ہونے کے ناطے سارے خاندان کے لیے کچن میں کھڑی رہ کے کام کرتے دیکھ کر، علیل ہوتے دیکھ کر اور پھر اپنی بڑی بہن کی شفقت کی ارزانی دیکھ کر، اورینٹل کالج لاہور میں پڑھنے والی تسنیم کی الفت میں اسیر ہو کر، عمر بھر اس سے رفاقت نباہنے والا، عورتوں کے حقوق اور تکریم کے لیے ہمیشہ فرنٹ پر رہنے والا، جب ایک خاموش ڈرامے میں ساڑھی پہن کر نسوانی کردار ادا کر کے باہر نکلا تو کشمیر کی آزادی کے لیے پنڈی آنے والے قبائلی یا افغان مجاہدین اس ’’مالِ غنیمت‘‘ کے لیے آپس میں لڑ پڑے، جس نے اپنے والد کی گاڑی میں اپنے استاد خواجہ مسعود کے کہنے پر بھارت سے آنے والے ایک خاص مہمان سجاد ظہیر کو میجر جنرل اکبر خاں کے گھر پہنچایا، جہاں سے لیاقت علی خان کا تختہ الٹنے والی پنڈی سازش کیس کا ڈراما، کمیونسٹ پارٹی پر پابندی، پی پی ایل اور انجمن ترقی پسند مصنّفین پر حکومتی عتاب اور اپنی بیوی اور بیٹیوں سمیت اس عابد منٹو کی گرفتاری، روپوشی، نظر بندی کے طویل تجربے کے باوجود کسی کے لیے تلخ یا ترش لفظ استعمال نہیں کرتا۔ ہر مرحلے پر سمجھنے اور سمجھانے کے طریق کو آسان فہم بنا دیتا ہے۔ اسے ہی سعادت حسن منٹو پرنسپل لاء کالج کے دفتر میں ملنے آتا ہے کہ بھئی کیسے منٹو ہو جو لاہور آ کے ابھی تک مجھے ملنے نہیں آئے اور لینن امن انعام پانے والے ڈاکٹر کچلو بھارت سے لاہور ان کے پاس آتے ہیں تو شورش کاشمیری کو پیار سے لمبو کہہ کے گلے لگاتے ہیں۔ وہ عاصمہ جہانگیر، اعتزاز احسن اور دیگر ساتھی وکلاء کا احترام سے ذکر کرتا ہے مگر سید کاظم رضا اور میاں بشیر ظفر کے معافی نامے کے عوض رہائی کو تاریخ کی ناقابلِ معافی گواہی خیال کرتا ہے۔ وہ ججوں اور چیف جسٹسوں کے بارے میں بھی ایسی رائے حسنِ ایجاز اور بشاشت سے لکھ دیتے ہیں۔ اس کتاب میں کئی دلچسپ واقعات ہیں۔
(ڈاکٹر انوار احمد)

RELATED BOOKS