Aalmi Sub Rang Afsanay | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

AALMI SUB RANG AFSANAY عالمی سب رنگ افسانے

AALMI SUB RANG AFSANAY

PKR:   2,400/-

عالمی سب رنگ افسانے
مرتب : محمد حامد سراج
تبصرہ نگار : عافیہ جہانگیر

خوب صورت، دیدہ زیب، رنگوں سے سرورق لیے، لحیم و شحیم کتاب عالمی سب رنگ افسانے جب میرے ہاتھ میں آئی تو اس کی خوب صورتی اور ائز دیکھ کر خوشی سے میں پھولے نہ سمائی کہ انتخاب میں بہترین عالمی افسانے ایک ساتھ پڑھنے کو مل جانا، یقینا خوشی ہی کی بات تھی اور مرتب حامد سراج صاحب کا اعلیٰ ادبی ذوق افسانوں کے دلدادہ قارئین کے لیے غنیمت ہے۔ وہ نہ صرف بہترین مرتب بلکہ نہایت منجھے ہوئے لیجنڈ لکھائی بھی ہیں۔ اُن کی بے شمار تصانیف اس بات کی گواہی دیں گی کہ انہوں نے بلاشبہ اُردو ادب کو بہترین افسانے، کہانیاں، انتخابات، مجموعے دیگر ادبی اصناف دی ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب اپنی ضخامت کے حساب سے بھی خوب ہے اور افسانوں کے معیار میں بھی خوب تر ہے۔ جو عالمی ادب اس شاندار مجموعے میں شامل ہے۔ اس میں اٹلی، افغانستان، امریکا، ایران، آئرلینڈ، برازیل، نبنگال، برطانیہ، تُرکی، جرمنی، چلّی، چیکوسلواکیا، چین، روس، رومانیہ، سربیا، شام، فرانس، مراکش، مصر، ناروے، ویت نام، ہندوستان، ہنگری وغیرہ شامل ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اتنے سارے ملکوں کا ادب ایک ساتھ ایک ہی مجموعے میں، بہترین اُردو نثری زبان میں پڑھنے کو مل جائے تو ادب سے محبت رکھنے والا خوشی سے کیوں نہ جھوم اُٹھے؟ ایسی ہی ایک شام جب مجھے یہ مجموعہ، ’’خوبصورت‘‘ بذریعہ کورئیر ملا، تو اس کو پڑھنے کے لیے نہ صرف وقت درکار تھا بلکہ مطالعہ کے دیگر ضروری لوازمات (میرے مطابق) بھی لازم تھے جن میں سب سے پہلے تو گرما گرم کافی یا چائے کا بھرا مگ، پس منظر میں ہلکی سی موسیقی(اُردو غزل ہو تو بہترین) اور تیسری چیز سب سے ضروری کھلی ہوا میں بیٹھنا، چاہے صحن ہو، لان ہو ٹیرس یا پھر کھڑکی سے نظر آتی شام کا منظر۔ اب میں ایک عمدہ کتاب پڑھنے کے لیے بالکل تیار ہوں۔

سب سے پہلے کس ملک کا ادب پڑھا جائے؟ بہت سوچ بچار کے بعد طے ہوا کہ ہندوستانی ادب تو اکثر نظر سے گزرتا رہتا ہے اور لاجواب بھی ہوتا ہے۔ اس دفعہ شروعات ذرا ہٹ کے کی جائے۔ تو میں نے جرمنی اور اٹلی کا ادب پڑھنے کے لیے چُنا۔ کتاب میں ایک خاص بات پائی۔ وہ یہ کہ اس میں جتنا بھی ادب شامل کیا گیا ہے انتہائی معیاری، مکمل مگر مختصر افسانے اور سب کے صفحات تقریباً ایک ہی تعداد میں ہیں۔ اسے اتفاق کہیے یا باقاعدہ منصوبہ بندی، جو بھی ہے خوبصورت بات ہے۔ اس سے قاری پر ایک خوشگوار تاثر پڑتا ہے۔ کم از کم مجھے تو یہ اچھا لگا۔ کچھ افسانوں کے صفحات زیادہ ہیں، ورنہ زیادہ تر افسانے ایک ہی جیسے ہیں یعنی مناسب۔

کئی افسانے ایسے تھے جن کی مجھے تلاش تھی اور اُردو میں اُن کا خاصا نام ہوا تھا مگر اب انہیں تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ اسی مجموعے میں دیکھ کر خوشگوار حیرت نے آن گھیرا اور کچھ افسانے ایسے ہیں جو بار بار پڑھے جانے کے لائق ہیں جیسے ہندوستانی ادب نگاری کا بہترین شاہکار عورت، رات اور چور۔ اتنی مکمل خوب صورت کہانی، ساتھ اُردو زبان کے موتی بکھیرتے لفظوں نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ میری کوشش ہو گی کہ یہ کہانی آئندہ آنے والے کسی شمارے میں شامل کی جائے تاکہ میرے ساتھ ساتھ باقی تمام قارئین بھی لطف اندوز ہو سکیں۔

ذرا کہانی کا پلاٹ ملاحظہ ہو۔ ایسا اچھوتا خیال آج کے افسانوں کو چھو کر بھی نہیں گزرتا۔ کہانی شروع ہوتی ہے آدھی رات کے وقت سے، جس میں ایک نوجوان لڑکی شادی کے لباس میں، اندھیری سڑک پر بے پروائی سے چلتی جا ررہی ہے اور اس کی مڈبھیڑ ایک چور سے ہوتی ہے۔ چور بھی ایسا جو آج کے زمانے میں شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ جسے نہ تو لڑکی سے کوئی مطلب نہ تھا وہ موقع پرست ہے۔ اسے مطلب ہے تو صرف ان زیورات سے، جو لڑکی پہنے ہوئے ہے۔ لڑکی اور چور کے درمیان ہونے والی گفتگو، مکالمے، لہجوں کا اُتار چڑھائو ساتھ ہی لڑکی کا اس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دینا۔ یقینا قاری سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ایسا کیا ہوا جو وہ دونوں بچھڑے دوستوں کی طرح ہر بات کرتے رہے۔

یہاں سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہ لڑکی اپنے محبوب کے پاس جا رہی تھی اور اس کے دلھا نے ہی اسے جانے کی اجازت دی تھی۔ ذرا اس کی بے خوف گفتگو ملاحظہ ہو۔ شاید یہ بے باکی اور جرأت اسے محبت کی طاقت نے عطا کی ہے۔

’’میں تمہیں دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں۔ آدھی رات کو زیورات سے لدی پھندی گھر سے بھاگی لڑکی کی طرح چلی جا رہی ہو۔‘‘

’’تمہارا اندازہ درست ہے۔‘‘ سچترا نے بے خوفی سے کہا۔

’’میں اپنے محبوب سے ملنے جا رہی ہوں۔‘‘

’’چپ چاپ اپنے سارے زیور اُتار کر میرے حوالے کر دو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘

’’مجھ سے زیورات مت طلب کرو۔ میں انہیں دینا بھی چاہوں تو نہیں دے سکتی۔ اگر میں نے تمہیں یہ زیورات اُتار کر دے دیے تو میرا شوہر سے اجازت لے کر اپنے محبوب سے ملنے کے لیے جانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔‘‘

’’محبوب سے ملنے اور وہ بھی اپنے شوہر سے اجازت لے کر۔‘‘

چور نے حیرانی سے کہا۔

’’میری روداد بہت عجیب ہے۔‘‘ سچترا نے کہا۔

’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ چور کے لیے اب یہ سوال حل کرنا زیورات لوٹنے سے زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔

’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ سچترا نے اسے سمجھاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔

اب آگے کی کہانی قارئین کو دلچسپ موڑ کے ساتھ اپنے سحر میں گرفتار کرتی چلی جاتی ہے۔ لکھاری من موہن باوا نے بہت خوب صورت افسانہ لکھا اور اسے ایک دلچسپ اختتام دے کر قارئین کی امیدیں ٹوٹنے نہیں دیں، جنہوں نے اس کا انجام اپنے اذہان میں سوچ لیا تھا۔ دکھوں کے لبادے میں سمٹی خوشیاں اچانک کیسے سامنے آتی ہیں۔ یہ خوبصورتی اس کتاب کے کئی افسانوں میں جا بجا بکھری ملتی ہے اور اسی خوشبو کو یکجا کر کے اس ڈھیر کو نام دیا گیا ہے ’’عالمی سب رنگ افسانے‘‘۔

سفید براق اعلیٰ کوالٹی کے کاغذ پر طبع شدہ یہ نادر کتاب اگر آپ کی لائبریری میں نہیں تو اس کا مطلب آپ نے اُردو افسانے کے شیدائی ہونے کا حق ابھی تک ادا نہیں کیا۔ اس کے ناشر ہیں بُک کارنر جہلم پاکستان اور قیمت کتاب کے ساتھ انصاف کرتی ہے یعنی 2400 روپے۔ اس نمبر پر رابطہ کر کے آپ براہِ راست یہ کتاب منگوا سکتے ہیں۔
03215440882
03235777931

(اُردو ڈائجسٹ نومبر 2018ء صفحہ 206)

RELATED BOOKS