CHAK PIRAN KA JASSA (2ND EDITION) چک پیراں کا جسا
CHAK PIRAN KA JASSA (2ND EDITION) چک پیراں کا جسا
PKR: 1,500/- 750/-
Author: BALWANT SINGH
Pages: 424
ISBN: 978-969-662-217-8
Categories: NOVEL URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
بلونت سنگھ، پیدائش جون 1921ء چک بہلول، گوجرانوالہ، پنجاب۔ والد فوجی سکول میں استاد۔ ابتدائی تعلیم گوجرانوالہ، میانوالی اور جالندھر، والد کے تبادلے کے باعث چھوٹی عمر میں پنجاب سے ہجرت۔ کیمبرج سکول دہرا دون سے میٹرک۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری کا حصول۔ 1940ء میں پہلے افسانے ’’ڈنڈ‘‘ کی دلّی کے اخبار ’’پرتاپ‘‘ میں اشاعت۔ بی اے کے بعد کئی برس شہرِ ہزار رنگ لاہور میں اقامت، راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ شب و روز رفاقت۔ 1943ء میں افسانوں کے پہلے مجموعے ’’جگّا‘‘ کی رونمائی اور پذیرائی۔ 1947ء تک مزید تین افسانوی مجموعوں کی اشاعت۔ تقسیمِ ہند کے وقت رونما ہوئے روح فرسا واقعات کے شاہد۔ جولائی 1948ء سے جنوری 1950ء تک دلّی کے رسائل ’’آج کل‘‘، ’’بساطِ عالم‘‘ اور ’’نونہال‘‘ میں ملازمت۔ 1948ء میں پہلی شادی اور ایک سال بعد ہی علیحدگی۔ 1950ء میں والد کی وفات کے بعد الٰہ آباد منتقلی اور والد کے قائم کردہ امپیریل ہوٹل کا نظم و نسق سنبھالنا۔ لفظوں کے شعبدہ ساز کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا راس نہ آیا۔ چند برس بعد ہوٹل بیچ کر خود کو فسانہ نگاری و فسانہ سازی کے لیے وقف کر دیا۔ 50 برس کی عمر میں خود سے 25 برس چھوٹی منجو سنگھ سے دوسری شادی۔ دو بچّوں کی پیدائش اور خوشگوار ازدواجی زندگی۔ ’’کالے کوس‘‘، ’’رات، چور اور چاند‘‘، ’’چک پیراں کا جسا‘‘ جیسے شاہکار ناول اور سیکڑوں بےمثال افسانے اس باکمال ادیب کی میراث۔ 27 مئی 1986ء کو الٰہ آباد میں انتقال۔ اتر پردیش، پٹیالہ اور مشرقی پنجاب کی حکومتوں کی جانب سے ادبی اعزازات مگر اصل اعزاز تو وہ محبّت اور عقیدت ہے جو انھیں سرحد کے دونوں جانب حاصل ہوئی۔ شکیل عادل زادہ نے ان کا مختصر خاکہ کچھ یوں لکھا تھا، ’’بلونت سنگھ، اُردو کا ایک بانکا افسانہ نگار، بانکا، سجیلا، کٹیلا۔ پنجاب نے اُردو کو بلند مرتبت کہانی لکھنے والے دیے ہیں۔ بلونت، بیدی، منٹو، قاسمی، غلام عباس، کرشن جی، اشک، کس کس نام ور کا نام لیجیے، ایک طویل فہرست ہے۔ کہانی لکھنے کا بلونت کا اپنا ایک ڈھنگ ہے۔ تیز ، تند، بھڑکتا ہوا۔ بہت حُسن پرست ہے اور شیوه جیالوں اور جواں مردوں کا ہے۔ بلونت سنگھ نے بیشتر پنجاب کی کہانیاں لکھی ہیں اور اپنی مٹّی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس کی تحریروں میں پنجاب کی بے باکی، پنجاب کا جمال، پنجاب کی خوش بو رچی بسی ہوئی ہے۔‘‘
(حسن رضا گوندل)