WOH KEHAN GAYE وہ کہاں گئے
PKR: 480/-
Author: MAZHAR MEHMOOD SHERANI
Pages: 200
Year: 2020
Categories: KHAKAY / SKETCHES
Publisher: ATLANTIS
‘وہ کہاں گئے‘‘، فرزند اختر شیرانی، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی زندگی کی آخری کتاب ہے۔ یہ خاکے ہیں، زندگی سے بھرپور خاکے۔ شیخ محمد اکرام، حسام الدین راشدی، جسٹس ایس اے رحمن، حکیم محمود برکاتی و دیگر شخصیات پر انہوں نے قلم کر گویا قرض ادا کردیا ہے۔ ‘‘زندہ کتابیں‘‘ کے منتظمین کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی عاجزانہ درخواست پر شیرانی صاحب نے یہ کتاب عرصہ سوا برس میں مکمل کی اور اسے ‘‘زندہ کتابیں‘‘ میں شایع کرنے کی اجازت دی۔
زبان و بیان پر مظہر محمود صاحب کو قابل رشک قدرت حاصل ہے۔ وہ الفاظ میں نہ اسراف کے قائل ہیں نہ بخل کے۔ایک ماہر مصور کی طرح رنگوں کو ٹھیک ٹھیک صرف کرتے ہوئے مو قلم کی دو چار ہی جنبشوں میں وہ بسا اوقات ایک بولتی ہوئی تصویر بنا دیتے ہیں۔
---------------------
فروری 1990ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی نے حافظ محمودشیرانی سیمینار منعقد کیا تو میں اس میں شرکت کے لیے گیا۔ٹونک سے صاحبزادہ شوکت علی خاں بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دہلی کے سیمینار کے فوراً بعد ٹونک میں اپنے ادارے کے زیر اہتمام محمود شیرانی کی یاد میں تقریبات کا منصوبہ بنا رکھا تھا چنانچہ دہلی سے فارغ ہو کر ہم اکٹھے ٹونک روانہ ہو گئے۔ ٹونک میں قیام کا یہ ایک ہفتہ بھی حسب سابق بڑا بھر پور تھا۔ اس گئے گزرے دور میں بھی وہاں اہل علم و فضل و شعر و ادب کی ایک کہکشاں موجود تھی اور کتنی ہی مہرو محبت اور خلوص و وفا میں گندھی ہوئی شخصیات اس خرابے میں خزانوں کی طرح دمک رہی تھیں۔
سید منظور الحسن برکاتی
-------
قائد اعظم کے تعلق میں خورشید صاحب کی پہلی کتاب بعنوان ”قائد اعظم کے شب و روز“ مقتدرہ قومی زبان۔ اسلام آباد کے توسط سے1986 ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ یکم جولائی 1944 ء سے لے کر 14 اگست 1947ء تک قائداعظم کی تاریخ اور سوانح حیات یا مصروفیات کا ریکارڈ ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی اور خورشید صاحب خدا جانے کتنے برسوں سے اس کے لئے مواد جمع کر رہے تھے۔ اس کا انتساب انہوں نے روح قائد کے نام کیا ہے۔
خورشید احمد خاں یوسفی
-------
لاڑکانہ میں فضل الرحمن خان صاحب جس مکان میں مقیم تھے وہ ان دنوں مہاجر کیمپ کا منظر پیش کرتا تھا۔ ان تینوں بھائیوں کے خاندان اور چوتھا ہماراکنبہ اس میں سر چھپائے پڑے تھے۔ شہر کے بیشتر مکانات ہندوﺅں کے ملکیت تھے جو بڑے اطمینان اور سست روی سے عازمِ ہندوستان ہو رہے تھے۔ جانے سے پہلے وہ اپنے مکان کی پگڑی،جو عموماً ایک یا دو سال کے کرائے پر مشتمل ہوتی تھی،وصول کر کے مکان کا قبضہ دے دیتے تھے تاہم قانونی الاٹمنٹ کا اختیار کلکٹر کو تھا۔ چچا نے شہر کے ایک سر برآوردہ وکیل کند نداس ٹلّو مل اسرانی کا مکان ہمارے لیے حاصل کیا اور ہم اس میں منتقل ہو گئے۔
در یتیم
-------
”مولانا ہم دونوں بھائیوں کو دلی کے کارونیشن ہوٹل سے زبردستی اٹھاکر اپنے ہاں لے گئے اور ایک کمرے میں یہ کہہ کر ٹھہرا دیا کہ ’دیکھو! ان حضرت سے شاہنامہ کی بات بھولے سے بھی نہ کرنا ورنہ مشکل پڑ جائے گی۔‘ ایک ریش تراشیدہ ،خشخشی مونچھوں والا بوڑھا آدمی، میلے پاجامے اور معمولی بنیان میں، ڈھیروں کتابیں اردگرد رکھے،چارپائی کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مارے،پروف پڑھنے میں اس قدر محو اور مشغول کہ مولانا کا یہ فقرہ جب فضا میں گونجا تو یک لخت گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ہمیں دیکھ کر وہ صاحب مسکرائے تو ضرور لیکن ان کی مسکراہٹ بہت ہی مضمحل تھی،گرم جوشی سے عاری اور شگفتگی سے بالکل خالی یاتو اس کمرے میں ہم اجنبیوں کا قیام انہیں ناگوار گزرا تھا یا پھر دمے اور بڑھاپے کی درماندگی سے وہ تھے ہی مرجھائے ہوئے۔
پیر حسام الدین راشدی
-----
47۔1946 ء میں میری عمر گیارہ بارہ سال کی تھی۔ مسلمان ریاست ہونے کی بنا پر ٹونک میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن ملک کے طول و عرض سے فسادات اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کی وحشت ناک خبریں آتی رہتی تھیں جن سے میرا نوخیز ذہین بہت متاثر ہوتا تھا ۔اس مسلسل اذیت سے نجات کی مجھے ایک ہی راہ سوجھی یعنی مطالعہ۔ گھر میں مطبوعہ کتابوں اور اردو کے اہم رسالوں سے ایک پورا کمرہ بھرا ہوا تھا۔کتابیں تو میری فہم سے بالا تھیں البتہ رسائل کو تختہءمشق بنایا۔میری خصوصی دلچسپی رسالہ” رومان“ سے تھی جس کا سرورق مجھے جاذب نظر معلوم ہوتا تھا اور پھر اس پر میرے والد کا نام بھی چھپا ہوتا تھا۔