Such ki Talash May

SUCH KI TALASH MAY سچ کی تلاش میں

SUCH KI TALASH MAY

PKR:   900/- 630/-

میری پہلی کتاب (شعری مجموعہ ’’برزخ‘‘) ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی۔ اُس وقت تک اگرچہ میرے کچھ ریڈیو/ٹی وی ڈرامے نشر اور ٹیلی کاسٹ ہو چکے تھے اور ’’فنون‘‘ میں کئی کتابوںپر تبصروں کے ساتھ ساتھ دو چار تنقیدی مضامین نما تحریریں بھی شائع ہو چکی تھیں۔ لیکن مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ مستقبل قریب میں ڈرامہ نگاری اور تنقید بھی میری پہچان بن جائیں گی۔ ستّر کی دہائی میں میر سے اقبال تک آٹھ منتخب اور عہد ساز شاعروں کے جدید انتخاب کے حوالے سے میں نے کچھ مضامین لکھے ضرور( جو بعد میں ’’نئے پرائے‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے) لیکن اُن سے ملنے والی بھرپور داد کے باوجود تنقید سے میرا تعلق واسطہ گہرا اور مسلسل نہ ہو سکا جس کی ایک وجہ اس زمانے میں میری شاعری اور ڈرامے سے شدید وابستگی بھی ہو سکتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنہی دنوں میں کسی انٹرویو کے دوران مَیں نے اپنی آئندہ کتابوں کے ذکر میں نہ صرف ایک تنقیدی مجموعے کا ذکر کیا بلکہ اس کا نام بھی اُسی وقت رکھ دیا اور یہ وہی نام ہے جو آج تقریباً چالیس برس بعد اس کتاب کے سرورق پر درج ہوا ہے یعنی ’’سچ کی تلاش میں‘‘ ۔
چند برس قبل مختلف ملکوں، زمانوں اور زبانوں کے ’’اقوالِ زریں‘‘ اور دانش پاروں کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک کمال کی بات نظر سے گزری جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’سچ ہوتا ہے اور جھوٹ گھڑنے پڑتے ہیں‘‘ ۔ اس قول کے محدب عدسے سے بالخصوص ادب سے متعلق تنقیدی تحریروں پر نظر ڈالی تو اس بات کے معانی نیل سے تابخاک کاشغر پھیلتے ہی چلے گئے۔ گروہ بندی، کم علمی، نظریاتی تنگ نظری، اندھی تقلید اور ذاتی پسند ناپسند کی پیدا کردہ بے انصافی پر مبنی ایسی ایسی آرا قدم قدم پر نظر آئیں کہ معاملہ سچ اور جھوٹ کے بجائے جھوٹ اور افترا پردازی کے مابین گردش کرنے لگا اور سچ ایک طرح سے استثناء کی صورت اختیار کر گیا۔ تعارفی مضامین، فلیپس اور دیباچوں وغیرہ میں تو غیر ضروری یا مبالغے کی حدوں کو چھوتی ہوئی تعریف کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا تعلق ہماری نیم پختہ ادبی روایت اور عمومی ماحول سے ہے مگر خالص اور باقاعدہ تنقیدی حوالے سے لکھے گئے مضامین میں یہ روش افسوس ناک اور گمراہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ تباہ کن بھی ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ سچ ہوتا ہے اور اسے جھوٹ کی طرح گھڑا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس میں ’’اپنا اپنا سچ‘‘ والی وہ رعایت ہوتی ہے جسے کئی اور شعبوں میں بلادھڑک استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سچ پہاڑ کی چوٹی کی طرح بھی ہوتا ہے جس کی طرف مختلف راستوں سے جایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ راستہ اور منزل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ سو سچ کی تلاش کا اُس وقت تک کوئی بامعنی مطلب نہیں ہو سکتا جب تک ہمارا رخ اصلی منزل کی طرف نہیں ہوتا یعنی کسی بھی فن پارے کا اصل سچ اُس کا میرٹ ہوتا ہے اور میرٹ کی کسوٹی سے قطع نظر اُس کی کوئی بھی پرکھ صحیح اور بامعنی نہیں ہو سکتی اور یہ وہ کام ہے جس کے لیے آپ کو ’’خطائے بزرگاں گرفتن ، خطا است‘‘ کے دائرے سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
اس کتاب میں شامل مضامین تنقیدی اصطلاحات کے حوالے سے مختلف پہچانوں کے حامل ہو سکتے ہیں لیکن جہاں تک ’’سچ کی تلاش‘‘ کا تعلق ہے وہ ا میں ایک قدرِ مشترک کی طرح شامل اور جاری و ساری ہے۔ زیادہ تر مضامین تاثراتی اور شخصی حوالے سے قلم بند کیے گئے ہیں، یعنی قدرے طویل اور باقاعدہ تنقیدی انداز میں لکھی گئی تحریریں تعداد میںنسبتاً کم ہیں جبکہ اُن کا زمانۂ تحریر بھی چار دہائیوں سے کچھ زیادہ دورانیے پر مشتمل ہے یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مضامین میں کچھ مسائل، موضوعات اور اشخاص کے بارے میں میری رائے میں کچھ فرق بھی آ گیا ہو۔
مَیں اس اعتبار سے اس فرق کو ownکرتا ہوں کہ سچ کی تلاش میں اگر آپ کو کچھ ایسا مواد مل جائے جو سابقہ معلومات میں کسی معیاری تبدیلی کا سبب بن جائے تو اس سے محض اس لیے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ اس کی زد خود آپ کی کسی سابقہ رائے پر پڑ رہی ہے۔ میں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس اصول پر کاربند رہوں مثال کے طور پر پہلے ہی مضمون ’’مصحفی کے تین دیوان‘‘ میں مَیں نے کہیں کہیں پہلے چار دوانین کی بنیاد پر لکھے گئے مضمون (مشمولہ ’’نئے پرانے‘‘) سے رجوع کیا ہے کہ اُس وقت تک بعد کا کلام ابھی مرتب اور شائع ہی نہیں ہوا تھا۔
مَیں شکر گزار ہوں ’’بک کارنر‘‘ اور بالخصوص برادران گگن شاہد اور امر شاہد کا کہ انہوں نے مجھے ان بکھرے ہوئے مضامین کو یک جا کرنے اور کتابی شکل میں مرتب کرنے کے لیے تحریک دی۔ امید کرتا ہوں کہ میری دیگر تحریروں کی طرح یہ کتاب بھی آپ کو پسند آئے گی۔


امجد اسلام امجد

RELATED BOOKS