Shahid Ahmed Dehlvi kay Shahkar Khakay

SHAHID AHMED DEHLVI KAY SHAHKAR KHAKAY شاہد احمد دہلوی کے شاہکار خاکے

SHAHID AHMED DEHLVI KAY SHAHKAR KHAKAY

PKR:   800/- 400/-

Author: SHAHID AHMED DELHVI
Categories: KHAKAY / SKETCHES
Publisher: BOOK CORNER

اب صاحب خاکے کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ صاحب خاکہ کی شان میں تعریفوں کے پُل ہی پُل باندھ دئیے جائیں۔ شاہد احمد دہلوی کے یہ خاکے ایسے لغو سے پاک ہیں۔ ان کے خاکوں میں آپ کو جائز تعریف، تعریض ، طنز، پھبتی، جگت ، فقرے بازی اور دلّی کی ٹکسالی زبان کے نادر نمونے ملیں گے۔ اب ایسے شاہکار خاکوں کو خانۂ نسیان کے سپرد کرنا کہاں کی ادب دوستی اور عقلمندی ہے، میں کوشش کرکے ماضی کے دھندلکوں سے شاہد احمد دہلوی کے نایاب اور گم شدہ خاکوں کو یکجا لارہا ہوں تاکہ شاہد احمد دہلوی جیسے ایک باکمال ادیب ’’ساقی‘‘ جیسے موقر جریدے کے مدیر اور ایک نایاب خاکہ نگار کا نام کہیں گم نہ ہو جائے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس کہ تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

-----

فہرست شخصیات:
مولوی نذیر احمد دہلوی، میر ناصر علی، استاد بیخود دہلوی، خواجہ حسن نظامی، بشیر الدین احمد دہلوی، مولانا عنایت اللہ، مرزا عظیم بیگ چغتائی، میرا جی، سعادت حسن منٹو، جگر مراد آبادی، حکیم کیف دہلوی، پروفیسر مرزا محمد سعید، استاد بندو خاں، ایم اسلم، جوش ملیح آبادی، جمیل جالبی، شاہد احمد دہلوی

پس ورق:

سر پر جناح کیپ رکھے، علی گڑھ کاٹ کا پاجامہ اور نفیس شیروانی زیب تن کیے ہوئے، پیروں میں سبک سلیم شاہی پہنے، لمبے سے سانولے مگر خوب صورت و سیرت شخص، سائیکل پر سوار جو ریڈیو اسٹیشن پہ پہنچتے تھے، ہاں یہ محسن ادب ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی تھے۔ جی ہاں وہی شاہد احمد دہلوی جو کبھی ’’ساقی‘‘ جیسے پروقار جریدے کے مدیر اور دلّی کی ٹکسالی زبان کے سفیر تھے۔ ہاں اس شاہد احمد کو آخری شب و روز میں مصائب اور خستہ حالی کی وجہ سے اپنے شکم کی آگ کو بجھانے کے لیے راگ کا سہارا لینا پڑا تھا، قلم کے اس بادشاہ کے اندر کا ادیب پیر الٰہی بخش کالونی کے اس مکان میں کب کا مر چکا تھا مگر دفن ایسے موسموں میں اس وقت ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے۔ اس شاہد احمد کو قدر کے پھولوں کا کفن تو نصیب نہ ہوا پر یہ ضرور کہتا چلا گیا کہ
یہ ملا ہے مجھے میری دانشوری کا انعام
کہ گمنام قبروں میں اتارا جا رہا ہوں میں

(حکیم اعجاز حسین چانڈیو)

شاہد احمد دہلوی کے ساتھ دلّی کی ایک روایت ختم ہو گئی۔ ایک دَور قبر میں اتر گیا۔ شاہد احمد دہلوی کی زندگی ادب اور موسیقی سے عبارت تھی۔ دلّی کی زبان اور ہندوستان کی موسیقی وہ دونوں کے عاشق تھے اور اُن کے تمام اسرار و رموز سے واقف۔ ’’ساقی‘‘ کا شمار اُن رسالوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد میں ادیبوں کی ایک پوری نسل کی تربیت کی۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، اختر حسین رائے پوری اور بہت سے ادیب اس اُفق سے طلوع ہوئے۔ جن ادیبوں کی شخصیت اور تحریروں سے عصمت چغتائی متاثر ہوئی ہیں ان میں شاہد احمد دہلوی بھی ہیں۔ آج شاہد احمد دہلوی ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی تحریریں زندہ ہیں۔

(علی سردار جعفری)

RELATED BOOKS