Dastaan Hai Pyaaray

DASTAAN HAI PYAARAY داستاں ہے پیارے

Inside the book
DASTAAN HAI PYAARAY

PKR:   2,500/- 1,750/-

Author: MUHAMMAD IQBAL DIWAN
Binding: hardback
Pages: 432
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-621-3
Categories: MEMOIR KHAKAY / SKETCHES
Publisher: BOOK CORNER

محمد اقبال دیوان حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد کا تعلق ریاست جوناگڑھ کے دیوان اور پٹیل گھرانے سے ہے۔ مادری زبان گجراتی اور میمنی ہے۔ جامعہ سندھ سے انگریزی زبان میں آنرز اور پوزیشن کے ساتھ ایم اے کرنے کے بعد آدم جی سائنس کالج کراچی میں انگریزی کے استاد رہے اور مقابلےکا امتحان سی ایس ایس پاس کرکے فورتھ کامن جوائن کیا۔ چھے سال کی ملازمت کے بعد جب مرکزی حکومت کے انتظامی ڈھانچے میں ترقی کے امکانات معدوم دِکھے تو سندھ میں صوبائی ملازمت کا امتحان پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ اسی دوران ایک کڑے بین الاقوامی مقابلے میں ہمفرے فیلو شپ کے لیے ان کا انتخاب ہوا اور امریکا کی پینسلوینیا یونیورسٹی میں اعلیٰ تربیت کے لیے چلے گئے۔ ملازمت کا زیادہ تر حصہ کراچی میں گزرا۔ وزیر نواب محمد یوسف تالپور اور سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف انھیں ڈائریکٹر سپیشل پراجیکٹس اور ڈائریکٹر فرٹیلائزر امپورٹس بنا کر وزارتِ خوراک و زراعت میں لے گئے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سرکار نے انھیں تربیتی اکیڈمی قائم کرنے کا فریضہ سونپ دیا، یہ اس کے بانی ڈی جی مقرر ہوئے۔ جن افسران نے ان کے پاس تربیت حاصل کی وہ اس وقت سندھ میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو ایک بڑے تجارتی خاندان کے ادارے میں دس سال تک ایک سینئر عہدے پر فائز رہے۔ اقبال دیوان ساٹھ کے قریب ممالک کی سیر کرچکے ہیں۔ مرزا غالب، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، آغا بابر، ابوالفضل صدیقی کو ادب میں، امرتا شیر گِل، کولن ڈیوڈ اور پکاسو کو مصوری میں، لتا منگیشکر، مدن موہن، شیلندر، جگجیت سنگھ اور شریا گھوشال کو موسیقی میں بہت پسند کرتے ہیں۔ محبتیں چنتے ہیں، آرزو کے محل سجاتے ہیں، مصوری سیکھتے ہیں، بے نیازانہ زیست کرتے ہیں اور میرؔ کے اس شعر کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں... خوش رہا جب تلک رہا جیتا ... میرؔ معلوم ہے قلندر تھا... یہی نہیں، ایک لاکھ کے قریب کتابوں کی ذاتی کولیکشن رکھتے ہیں اور کم از کم دو گھنٹے روزانہ مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کتابیں ایک بہت عالی شان دعوت کا نام ہے۔ اچھا ذہن، اچھی پوشاک مان کر اس دعوت میں جائیں، اِس مہمان سے مصافحہ، اُس کو جپھّی، کہیں کسی پر دُزدیدہ نگاہ، ایک آہ، کوئی پرانا خواب، کوئی جملہ، کوئی خیال، یہ ہے شانِ مطالعہ، سو نبھائے جاتے ہیں۔

---

دیوان صاحب کی سروس سے ریٹائر ہونے سے پہلے کی زندگی اور بعد از ریٹائرمنٹ ایک مصنف کی زندگی میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے سچ بولنا۔ انھوں نے جو دیکھا، جو سنا، اسے اپنے مطالعہ، مجاہدہ اور مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھا، پھر جنوں کی سان پر اس کی دھار تیز کی اور پھر منطق کے دہکتے کوئلوں پر اسے رکھ کر کندن بنایا، اس لیے ان کا لکھا ہوا رگ و پے میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے اور پڑھنے والا اس حیرت کدے سے نکل ہی نہیں پاتا۔
کامران لاشاری

ذہین گہری آنکھوں اور زرخیز دماغ والا یہ میمن افسر بہت کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بہت کم بیوروکریٹس ادیب بن کر ابھرے، اور اقبال دیوان اس خاص کیٹیگری میں سے ایک ہیں جو لکھتے ہیں اور بہت اچھا لکھتے ہیں۔ دل سے زیادہ اپنے غیرمعمولی دماغ کی سوچوں کو بڑے پیار اور احتیاط سے نکال کر کاغذ پر رکھ دیتے ہیں... اور مجال ہے کہ رحم کریں۔ یہ طے ہے کہ اس غیرمعمولی کتاب کے ذریعے پاکستان کی ایک اور جان دار تاریخ لکھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب بھی جلد کلاسک کی شکل اختیار کر لے گی۔ آنے والے زمانوں میں پڑھی جائے گی۔ ہمارے دیوان نے واقعی کچھ خاص لکھا ہے۔
رؤف کلاسرا

داستان کوئی بھی ہو، اپنے اندر بوقلموں رہتی ہے۔ اقبال دیوان کے پاس سے گزر کر وہ تعجب، اسرار، تاسف، حیرت اور دلچسپی بھی پیدا کر لیتی ہے۔ کیونکہ اُن کے پاس مختلف الاحوال مناظر دیکھنے کے لیے آنکھ ہی نہیں جراَت بھی ہے۔ چنانچہ تصویر کی آخری پرت تک وہ اپنے کینوس کی منقش گہرائی لے جاتے ہیں۔ کتاب کی تمام تصویریں اپنا الگ ہی طرزِ دید پیدا کرتی ہیں۔ کسی ڈرامے میں بھی اتنی رنگارنگی پیدا نہیں کی جاسکتی جو اقبال دیوان نے موضوعات کے تنوع سے ایک کتاب میں پیدا کر دی ہے۔ یقین نہ آئے تو صفحات پلٹنا شروع کر دیں۔
محمد طاہر

RELATED BOOKS