39 BARAY AADMI 39 بڑے آدمی
PKR: 950/- 570/-
Author: DALE CARNEGIE
Translator: JAVED SHAHEEN
Pages: 256
ISBN: 978-969-662-490-5
Categories: BIOGRAPHY CHARACTER BUILDING TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
ڈیل کارنیگی، پیدائش، 24 نومبر 1888ء، مِسوری امریکا۔ کئی عالمی لیڈروں کے پسندیدہ مشیر، امریکا کے ستر اخباروں میں مخصوص موضوعات پر لکھنے والے کالم نگار، ممتاز لیکچرار اور مصنف۔ سٹیٹ ٹیچرز کالج وارینزبرگ میں 1904ء سے لے کر 1908ء، امریکن اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس نیویارک میں 1911ء، کولمبیا یونیورسٹی گریجوایٹ سکول آف جرنلزم میں 1913ء اور نیو یارک یونیورسٹی جرنلزم سے 1914ء میں تعلیم حاصل کی۔ برسوں سے ڈیل کارنیگی کا نام احباب کو گرویدہ اور لوگوں کو متاثر کرنے کے سلسلے میں لیا جا رہا ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیلزمین اور معروف لیکچرار کے طور پر نیویارک جاتے اورYMCA کے ارکان کو کمیونی کیشنز کی تعلیم دیتے۔ 1912ء میں بین الاقوامی سطح پر ’’ڈیل کارنیگی کورس‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ نیٹ ورک آج دُنیا کے ستر سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس میں تین ہزار سے زائد انسٹرکٹرز شامل ہیں۔ اس کورس کے ذریعے لوگوں نے اپنی پوشیدہ خوبیاں بروئے کار لا کر ازسرِ نور ایک حوصلہ مند، پُرمسرت اور کامیاب زندگی کا آغاز کیا۔ ڈیل کارنیگی کی شہرۂ آفاق کتاب "How to Stop Worrying and Start Living" کی دُنیا کی تمام بڑی زبانوں میں کروڑوں کی تعداد میں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں جسے پڑھ کر لوگ پریشان رہنے کی عادت پر قابو پا چکے ہیں۔ اِس کتاب میں ڈیل کارنیگی اُن عملی اُصولوں کا ایک مجموعہ پیش کرتے ہیں جو آج اکیسویں صدی کی برق رفتار دُنیا میں بھی قابلِ عمل ہے۔ یہ اُصول عمر کے ہر حصے میں فائدہ پہنچانے والے ہیں۔ اس کتاب کے پبلشر ’’سائمن اینڈ شسٹر‘‘ اور نہ ہی ڈیل کارنیگی کو اس کے زیادہ فروخت ہونے کی توقع تھی لیکن وہ اس وقت حیران رہ گئے جب اس کتا ب نے را تو ں رات کچھ یوں مقبولیت حاصل کی کہ پریس کو عوا م کی بڑ ھتی ہو ئی طلب کو پو را کرنے کے لیے اس کتا ب کے ایڈیشن پر ایڈیشن چھاپنے پڑ گئے اور اس کتا ب نے پریس کی تاریخ میں بیسٹ سیلر کا اعزاز حا صل کر لیا۔ اُردو میں ڈیل کارنیگی کی کتابیں ’’پریشان ہونا چھوڑئیے جینا سیکھئے‘‘، ’’میٹھے بول میں جادو ہے‘‘، ’’گفتگو تقریر ایک فن‘‘، کامیاب لوگوں کی دِلچسپ باتیں‘‘، ’’39 بڑے آدمی‘‘ اور ’’مانیں نہ مانیں‘‘ کے نام سے ترجمہ ہوئیں۔ ڈیل کارنیگی کی کتابوں کی 6کروڑ سے زائد کاپیاں دُنیا کی 38 زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ دُنیا بھر میں کروڑوں افراد اِن کتابوں کا مطالعہ کر چکے ہیں اور ان اصو لو ں سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کو نہایت خوشگوار اور پُرسکون بنائے ہوئے ہیں۔ ’’میٹھے بول میں جادو ہے‘‘ اَب تک 16ملین سے زائد فروخت ہونے والی کتاب کا درجہ پا چکی ہے۔ ڈیل کارنیگی 66 برس کی عمر میں ہاجکن کا مرض لاحق ہونے سے انتقال کر گئے۔ انھیں یکم نومبر1955ء کو فارسٹ ہلز نیویارک میں دفن کیا گیا۔
----
جاوید شاہین، نام اختر جاوید اور تخلص شاہین۔ شاعر، ناول نگار، نقاد، مترجم۔ 28 اکتوبر 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد خاندان نقلِ وطن کر کے ضلع سیالکوٹ میں آباد ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور پھر لاہور ہی کے ہوکر رہ گئے۔ جاوید شاہین خُوب رُو تو تھے ہی، جوانی میں ان پر بھی فلمی ہیرو بننے کا بھوت سوار ہوا اور بمبئی چل پڑے۔ وہاں ساحر لدھیانوی کے مہمان بنے اور کیفی اعظمی، شاہد لطیف، یش چوپڑا اور گرودت سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جن کا احوال انھوں نے اپنی آپ بیتی ’’میرے ماہ و سال‘‘ میں بیان کیا ہے۔ لیکن زبان میں لُکنت کی وجہ سے انھیں فلم میں کام نہ مل سکا۔ گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے دوران جاوید شاہین کو مظفر علی سید، حنیف رامے اور شہزاد احمد کی صحبت نصیب ہوئی۔ حنیف رامے نے ان سے ڈیل کارنیگی کی کتابیں ترجمہ کرائیں۔ روس کے انقلابی لیڈر لیون ٹراٹسکی کی سوانح عمری "My Life" کا اُردو ترجمہ اُن کا ایک اہم کارنامہ تھا۔ کلیئرنس ڈے کی مشہور زمانہ کتاب "Life with Father" کا ترجمہ ’’ذاتِ گرامی‘‘ کے عنوان سے کیا۔ شاعری میں جاوید شاہین نے نظم پر زیادہ توجہ دی، غزل کو ثانوی حیثیت دی۔ بعد میں وہ نثری نظم کے ایک اہم نمائندے اور علم بردار بن کر اُبھرے اور کار زارِ ادب میں کئی معرکوں کے مرکزی کردار بنے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’زخمِ مسلسل کی ہری شاخ‘‘، ’’صبح سے ملاقات‘‘، ’’محراب میں آنکھیں‘‘، ’’دیر سے نکلنے والا دن‘‘، ’’نیکیوں سے خالی شہر‘‘ اور ’’ہوا کا وعدہ‘‘ شامل ہیں۔ 1993ء میں ان کی شعری کلیات شائع ہوئی تو اسے ’’عشق تمام‘‘ کا معنی خیز عنوان دِیا۔ ان کی دیگر تخلیقات میں ’’ایک دیوار کی دوری‘‘ (ناول)، ’’میرے ماہ وسال‘‘ (خودنوشت سوانح عمری)، ’’آٹھ غزل گو‘‘ (تنقید) اور ’’ہندو کش کے قبائل‘‘ شامل ہیں۔ جاوید شاہین کو محکمہ بلدیات میں ملازمت ملی اور ضلعی افسر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ ان کی ادبی حیثیت کے اعتراف میں انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ جاوید شاہین 23 اکتوبر 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پا گئے اور لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں سپردِ خاک ہوئے۔